انگلینڈ کا ایک قدم سیمی فائنل اور دوسرا فائنل میں؟
پاکستان کے بارے میں تو کسی نے سوچا تک نہیں ہوگا کہ ٹی20 ورلڈ کپ 2021ء میں یہ اپنے گروپ میں سب سے اوپر ہوگا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسرے گروپ میں انگلینڈ سے یہ توقعات ضرور تھیں اور وہ ان پر بخوبی پورا بھی اترا ہے۔
اس وقت ٹیم انگلینڈ کا ایک قدم سیمی فائنل بلکہ کئی ماہرین کی نظر میں تو فائنل میں ہے اور آسٹریلیا کے بعد جس طرح انگلینڈ نے سری لنکا کے خلاف مقابلہ جیتا ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اس وقت وہ مکمل طور پر ترنگ میں ہے۔
ویسے سری لنکا کے خلاف مقابلہ تو بے جوڑ سمجھا جارہا تھا لیکن یہ انگلینڈ کے لیے بڑا امتحان ثابت ہوا۔ ایک تو ٹاس ہارنے کے بعد اسے پہلے بیٹنگ کرنی پڑی اور بعدازاں اوس پڑنے کی وجہ سے مشکل حالات میں باؤلنگ اور فیلڈنگ بھی، تاہم انگلینڈ کی ٹیم نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرکے اہم کامیابی حاصل کی۔
سری لنکا کے ابتدائی وار
ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ، جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ اس ورلڈ کپ میں اب تک کامیابی کا فارمولہ سمجھا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سری لنکا نے بھی ٹاس جیت کر پہلے انگلینڈ کو کھیلنے کی دعوت دی۔ پھر دوسرے ہی اوور میں ہسارنگا ڈی سلوا کی ایک خوبصورت گیند جیسن روئے کو کلین بولڈ کرگئی اور پاور پلے مکمل ہونے تک ورلڈ نمبر وَن بیٹسمین ڈیوڈ ملان اور جونی بیئرسٹو بھی پویلین واپس پہنچ چکے تھے۔
سری لنکا کو اس سے بہتر موقع مل نہیں سکتا تھا کیونکہ اب تک جس ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے حریف کو بیٹنگ کی دعوت دی ہے اور پاور پلے میں اس کی 3 سے 4 وکٹیں حاصل کی ہیں، کامیابی نے اس کے قدم چومے ہیں۔
مثلاً پاکستان کی بھارت کے خلاف جیت ہی کو دیکھ لیجیے۔ مگر یہاں حریف پر شکنجہ کسنے کی ضرورت تھی تاکہ مقابل گرفت سے نکلنے نہ پائے۔ پاکستان کے برعکس سری لنکا ایسا نہیں کرپایا اور انگلینڈ اپنے تجربے، حالات کی بہتر سوجھ بوجھ، دباؤ جھیلنے کی صلاحیت اور مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی حاضر دماغی کی مدد سے آخر میں کامیاب و کامران ٹھہرا۔
انگلینڈ کی بیٹنگ لائن کا پہلا بڑا امتحان
اس مقابلے کے دوران انگلینڈ کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جس میں ہمیں دوسری ٹیمیں شدید دباؤ میں نظر آئی تھیں۔ بھارت کو پاکستان کے خلاف دیکھ لیں، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کے چند مقابلوں پر نظر دوڑائیں، ایسا ہی دکھائی دے گا لیکن انگلینڈ نے وہ غلطیاں نہیں کیں۔
ٹی20 ورلڈ کپ 2021ء میں اب تک ہمیں انگلینڈ کی بیٹنگ لائن کا کڑا امتحان نظر نہیں آیا تھا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف اسے صرف 56 رنز کا ہدف حاصل کرنا تھا، بنگلہ دیش کے خلاف محض 125 اور آسٹریلیا کے خلاف 126 رنز کا تعاقب کرنا تھا اور ٹیم نے ان تمام مواقع پر باآسانی جیت کو یقینی بنایا۔ تاہم سری لنکا کے خلاف ابتدائی دھچکوں کے بعد پہلی بار انگلینڈ کی بیٹنگ لائن کو کڑی آزمائش سے گزرنا پڑا۔
یہاں وکٹ کیپر جوز بٹلر اور کپتان اوئن مورگن نے میدان سنبھالا اور ثابت کیا کہ آخر انگلینڈ کو ورلڈ کپ کے لیے 'ہاٹ فیورٹ' کیوں سمجھا جا رہا ہے؟ دونوں بلے بازوں نے پاور پلے کے بعد 7 سے 15ویں اوورز کے درمیان نہ صرف 69 رنز کا اضافہ کیا بلکہ کوئی وکٹ بھی نہ گرنے دی۔ یہی وہ مقام تھا جہاں میچ پر سری لنکا کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔
جو انگلینڈ اننگ کے ابتدائی 10 اوورز میں صرف 47 رنز بنا پایا تھا، وہ باقی ماندہ اوورز میں مزید صرف ایک وکٹ کھو کر 116 رنز کا اضافہ کرنے میں کامیاب رہا۔ جوز بٹلر محض 67 گیندوں پر 101 رنز بنا کر میدان سے ناقابلِ شکست واپس آئے۔ ان کی اننگ کی سب سے خاص بات تھی آخری گیند پر چھکا لگا کر سنچری مکمل کرنا۔ ان کی اس اننگ کے بعد دوسری نمایاں اننگ کپتان مورگن کی رہی جنہوں نے 36 گیندوں پر 40 رنز بنائے۔
بے حال سری لنکا
اب سری لنکا کو 164 رنز کے ہدف کا تعاقب کرنا تھا اور اسے ایک ایڈوانٹیج حاصل تھا کہ انگلینڈ کو مشکل حالات میں باؤلنگ اور فیلڈنگ کرنا تھی لیکن ابتدائی اوور میں رن آؤٹ اور پاور پلے میں 3 وکٹیں گرنے کے بعد وہ اس 'برتری' سے محروم ہوگیا۔
کپتان ڈاسن شناکا اور ہسارنگا ڈی سلوا نے 36 گیندوں پر 53 رنز کی شراکت داری سے لنکا کو امید کی ایک کرن دکھائی۔ اسے آخری 4 اوورز میں 41 رنز کی ضرورت تھی، جو آج کی جدید کرکٹ میں باآسانی بن سکتے تھے۔ یہ وہ آخری موقع تھا جو مقابلے میں واپسی کے لیے سری لنکا کو ملا لیکن انگلینڈ کی فیلڈنگ نے یہاں فیصلہ کُن کردار ادا کیا۔
میچ کے اہم ترین مرحلے پر جیسن روئے نے سیم بلنگز کے ساتھ مل کر ہسارنگا کا ناقابلِ یقین کیچ لے لیا۔ وائیڈ لانگ آف پر دوڑتے ہوئے انہوں نے گیند کو کیچ کرلیا لیکن انہیں اندازہ ہوا کہ وہ باؤنڈری لائن پر گر جائیں گے اس لیے گرنے سے پہلے گیند قریب کھڑے سیم بلنگز کی طرف اچھال دی اور یوں اس ٹورنامنٹ کے بہترین کیچوں میں سے ایک تھام لیا گیا۔
صرف 3 گیندوں بعد جوز بٹلر کے ڈائریکٹ تھرو نے داسن شناکا کی اننگ کا بھی خاتمہ کردیا۔ دونوں سیٹ بلے باز آؤٹ ہونے کے کچھ ہی دیر بعد سری لنکا کی اننگ تمام ہوئی۔ اس کی آخری 5 وکٹیں صرف 14 گیندوں پر 8 رنز کے اضافے سے گریں۔
یوں انگلینڈ ٹاس ہارنے اور پہلے بیٹنگ کرنے کے باوجود جیت گیا، جو اس ورلڈ کپ میں کم ہی دیکھا گیا ہے۔
شارجہ دبئی سے مختلف
یہ مختلف نتائج دبئی کے مقابلے میں شارجہ میں نظر آئے ہیں۔ دبئی میں اب تک ہونے والے تمام ہی میچ ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیموں نے جیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ٹاس کا کردار بہت اہم سمجھا جا رہا ہے۔ زیادہ تر ٹیموں کی کوشش ہے کہ ٹاس جیت کر پہلے حریف کو کھیلنے کی دعوت دیں اور پھر شام کو باؤلنگ کے لیے مشکل حالات کی وجہ سے حریف کی مشکلات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باآسانی ہدف کا تعاقب کرلیں۔
مگر شارجہ میں اب تک ہونے والے 6 میں سے 3 میچ پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم جیتی ہے۔ انگلینڈ کے علاوہ ویسٹ انڈیز اور افغانستان بھی ایک، ایک بار اسی میدان پر اپنے ہدف کا کامیابی سے دفاع کرچکے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ یہ کوئی پکّا فارمولہ نہیں ہے، اگر کوئی ٹیم انگلینڈ کی طرح ڈٹ جائے تو وہ صورتحال کو بدل بھی سکتی ہے۔
سری لنکا، کمی کیا؟ کوتاہی کہاں؟
انگلینڈ کے برعکس سری لنکا ورلڈ کپ میں بجھا بجھا نظر آیا ہے۔ بنگلہ دیش کے خلاف پہلے میچ میں ایک زبردست جیت کے باوجود اسے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے ہاتھوں کراری شکستیں سہنا پڑیں۔ انگلینڈ کے خلاف تو اسے بھرپور مواقع ملے لیکن اس نے انہیں ضائع کیا اور اب اس کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے امکانات تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔
سری لنکا سے کہاں چُوک ہوئی؟ کیا کمی رہ گئی جس کی وجہ سے نہ صرف انگلینڈ بلکہ اس سے پہلے بھی ہونے والے مقابلوں میں شکست اس کے نصیب میں آئی؟ اس پر کرتا دھرتاؤں کو کچھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں جو سب سے پہلی کمی نظر آئی وہ جیت کے یقین اور اسے حاصل کرنے کی تڑپ کی ہے۔ یہاں تک کہ ٹاس جیتنے کے بعد جب مقابلہ سری لنکا کی مٹھی میں تھا، تب بھی وہ اپنی پکڑ مضبوط نہیں رکھ پائے۔ اب اس کی وجہ آپ انگلینڈ کے بلے بازوں کی اچھی بیٹنگ کو قرار دیں یا کچھ اور، لیکن کوئی بھی ٹیم تبھی ایک قابلِ ذکر حریف کہلاتی ہے جب وہ اس طرح کی صورتحال میں حریف کو مقابلے میں واپس آنے کا موقع نہ دے، جس طرح پاکستان نے بھارت اور نیوزی لینڈ دونوں کو نہیں دیا۔
پھر دباؤ جھیلنے کی صلاحیت کا بھی فقدان نظر آیا، جس میں بلاشبہ تجربے کا بڑا کردار ہے۔ مجموعی طور پر سری لنکا کا دستہ ناتجربہ کار ہے۔ ماضی کی طرح اس میں کوئی بڑا اور نمایاں کھلاڑی نہیں ہے۔ دنیش چندیمل اور کوسال پریرا ضرور ٹیم کے ساتھ ہیں لیکن ان کا درجہ کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردنے جیسے کھلاڑیوں کی سطح کا نہیں کہ جن کی موجودگی ہی ٹیم کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کافی ہو۔
ورلڈ کپ کو تبھی بڑا اور اہم ٹورنامنٹ مانا جاتا ہے کیونکہ جہاں اس کی تیاری کے لیے بہت زیادہ کوششیں کی جاتی ہیں، وہیں ناکامی کی صورت میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ ورلڈ کپ میں اس طرح کی ناکامی سری لنکا میں کیا تبدیلی لاتی ہے لیکن بقیہ میچوں کی کارکردگی دیکھنا ابھی باقی ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں