کیا سیمی فائنل اور فائنل جیتنے والی ٹیموں کا فیصلہ بھی ٹاس ہی کرے گا؟
اس بار ٹی20 ورلڈ کپ میں ٹاس جیتنا اور پھر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کرنا جیت کی علامت بنتا جارہا ہے۔ کوالیفائنگ اور وارم اپ میچوں میں تو اس عمل سے نتائج پر زیادہ فرق نہیں پڑا لیکن سپر 12 مرحلے میں تو بعد میں ہدف کا تعاقب کرنا جیت کا ضامن بن چکا ہے۔
اس لیے انٹرینشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے لیے لازم ہے کہ وہ اس حوالے سے غور کرے، وکٹوں میں کچھ تبدیلیوں یا قوانین میں ردوبدل جیسا کوئی نہ کوئی اقدام تو لازم ہوتا جا رہا ہے۔ ورنہ سیمی فائنل اور فائنل میں صرف ٹاس کی ہی اہمیت رہ جائے گی۔
جنوبی افریقہ بمقابلہ سری لنکا
دن کے پہلے میچ میں سری لنکا نے پہلے بیٹنگ کی اور اوپنر پاتھم نسانکا کے علاوہ کسی کا بلا رنز نہیں بنا سکا۔ باقی تمام بلے باز کچھ جلدی میں لگے اور کسی نے بھی نسانکا کا ساتھ نہیں دیا۔ دوسری وکٹ کے لیے چارتھ اسالانکا نے کسی حد تک نسانکا کا ساتھ دیا مگر ان دونوں کی پارٹنرشپ کے دوران نسانکا کا کھیل بہت سست رہا۔
رن ریٹ 8ویں اوور کے بعد بھی 6 سے کم ہی تھا۔ اس رن ریٹ کو بڑھانے کے لیے دونوں نے کیشو مہاراج کے اوور کا انتخاب کیا اور دونوں نے چھکے بھی لگائے مگر پھر اسی اوور میں اسالانکا کی وکٹ بھی گرگئی۔ اس نقصان کے بعد کوئی بیٹسمین بھی ذمہ دارانہ اننگ نہیں کھیل سکا اور یوں پوری سری لنکن ٹیم 20 اوورز میں 142 رنز ہی بناسکی۔
ان 142 رنز میں نسانکا کے ذمہ دارانہ 72 رنز بھی تھے، اور سوچ لیجیے کہ اگر وہ جلدی آوٹ ہوجاتے تو سری لنکا کے لیے صورتحال کس قدر خراب ہوسکتی تھی۔
جنوبی افریقہ کی جانب سے ٹی20 نمبر وَن اسپنر تبریز شمسی اور ڈیوائن پریٹوریس نے عمدہ باؤلنگ کا مظاہرہ کیا اور 3، 3 وکٹیں حاصل کیں۔
چونکہ جنوبی افریقہ کی ٹیم میں کوئنٹن ڈی کوک کی واپسی ہوچکی تھی اس لیے کپتان ٹیمبا باووما نے خود نچلے نمبر پر بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ ڈی کوک آئی پی ایل اور اس سے قبل جنوبی افریقہ کے لیے نہایت عمدہ فارم میں تھے لیکن ٹی20 ورلڈ کپ میں ابھی تک اپنا جادو نہیں دکھا پائے۔ ڈی کوک دونوں وارم اپ میچوں میں بھی اسکور بنانے میں ناکام رہے تھے۔
سری لنکا کے خلاف اس میچ میں ریزا ہینڈرکس کے ساتھ ڈی کوک نے جنوبی افریقہ کو ایک اچھا آغاز فراہم کرنے کی کوشش کی لیکن دشمنتھا چمیرا نے اننگ کے چوتھے ہی اوور میں دونوں اوپنرز کو پویلین لوٹا دیا۔
اس کے بعد وکٹوں کے درمیان خراب رننگ اور سری لنکا کی خراب فیلڈنگ کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ جنوبی افریقہ کے بلے باز نہایت خطرناک سنگل لے رہے تھے اور سری لنکن فیلڈرز کی تھرو وکٹوں پر لگنے کے بجائے بس اِدھر اُدھر سے گزر رہی تھی۔ ایک تھرو وکٹوں کے پاس سے ہوتی ہوئی بیک اپ فیلڈر کے پاس سے گزر گئی لیکن وہ فیلڈر کہیں اور دیکھ رہے تھے یوں بال باؤنڈری کے پار جا پہنچی۔ پھر وکٹ کیپر نے ایک کیچ گرا دیا، مزے کی بات یہ رہی کہ امپائر نے اسے وائڈ قرار دے دیا۔ لیکن سری لنکن فیلڈر کی بار بار غلطیوں کے باوجود وین ڈر ڈوسن رن آؤٹ ہی ہوئے۔
باووما اور ایڈن مارکرم کی پارٹنرشپ اگرچہ طویل لیکن سست تھی اور ہر گزرتے اوور کے ساتھ مطلوبہ رن ریٹ بڑھتا جا رہا تھا۔ مارکرم چوکا لگانے کے بعد وکٹ دے گئے اور ڈیوڈ ملر کی آمد ہوئی۔
ڈیوڈ ملر بالکل فارم میں نہیں لگ رہے تھے مگر باووما نے چمیرا کو ایک چھکا لگاتے ہوئے مطلوبہ رن ریٹ 10 کے آس پاس ہی رکھا۔ 15ویں اوور کی پانچویں گیند تک تو میچ جنوبی افریقہ کے ہاتھ میں ہی تھا، مگر پھر ونیدو ہاسارنگا نے مارکرم کی وکٹ حاصل کرلی۔ نقصان یہاں نہیں ہوا، بلکہ ہاسارنگا نے اپنے اگلے اوور یعنی اننگ کے 17ویں اوور کی پہلی 2 گیندوں پر کپتان باووما اور ڈیوائن پرویٹورس کی وکٹ حاصل کرکے نہ صرف اپنی ہیٹ ٹرک مکمل کی بلکہ جنوبی افریقہ کو بھی میچ سے کسی حد تک پیچھے کردیا۔
ہسارنگا ٹی20 ورلڈ کپ میں ہیٹ ٹرک مکمل کرنے والے تیسرے باولر بن گئے۔ سب سے پہلی ہیٹ ٹرک آسٹریلوی فاسٹ باولر بریٹ لی نے 2007ء میں کیپ ٹاون کے میدان پر بنگلہ دیش کے خلاف بنائی تھی اور دوسری ہیٹ موجودہ ورلڈ کپ میں ابوظہبی کے میدان پر آئرلینڈ کے کرٹس کیمفر نے نیدرلینڈ کے خلاف مکمل کی۔ ہاسارنگا چوتھی گیند پر بھی وکٹ کے خواہش مند تھے لیکن ریویو سے پتا چلا کہ ربادا کے پیڈ پر لگنے والی گیند لیگ اسٹمپ سے باہر جارہی ہے۔
19ویں اوور میں کگیسو ربادا نے بروقت چھکا لگایا جس کے بعد آخری اوور میں جنوبی افریقہ کو جیت کے لیے 15 رنز کی ضرورت تھی۔ ڈیوڈ ملر کی فارم کو دیکھتے ہوئے میچ سری لنکا کے حق میں جاتا محسوس ہورہا تھا مگر ملر نے اوور کی دوسری اور تیسری بال پر اپنے ٹریڈ مارک چھکے لگا کر جنوبی افریقہ کی جیت کو یقینی بنادیا۔
انگلینڈ بمقابلہ آسٹریلیا
دن کا دوسرا میچ جسے ابتدا میں منی ایشز بھی کہا جا رہا تھا، مگر وہ ایک ڈراپ سین یا فلاپ سین پر منتج ہوا۔ میدان میں کھیلنے والی صرف ایک ہی ٹیم تھی جس نے ٹاس جیتا اور دوسرے ہی اوور سے میچ پر ایسا غلبہ قائم کیا کہ یہ کسی صورت 2 برابر کی ٹیموں کا میچ نہیں لگ رہا تھا۔
میچ کے کسی بھی موقع پر ایسا نہیں لگا کہ آسٹریلوی ٹیم میچ جیت سکتی ہے۔ اس میچ میں آسٹریلوی ٹیم سے کچھ بڑی غلطیاں ہوئیں جس وجہ سے نتیجہ اتنا یکطرفہ رہا۔
پچھلے میچوں میں 5ویں باؤلر کی کمی کو دُور کرنے کے لیے مچل مارش کو باہر بٹھا دیا گیا جو پچھلے چند مہینوں میں سب سے بہتر کارکردگی دکھانے والے بلے باز تھے۔ اسٹیو اسمتھ کو مچل مارش پر ترجیح دینا غلط فیصلہ تھا۔ اس کے علاوہ گلین میکسویل کو پاور پلے میں بلے بازی کے لیے بھیجنا ایک اور غلط فیصلہ ثابت ہوا۔
انگلینڈ نے محض اس وجہ سے پچھلے 2 میچوں کے کامیاب باؤلر معین علی سے باؤلنگ نہیں کروائی کیونکہ وکٹ پر آسٹریلوی کپتان ایرون فنچ موجود تھے جو آف اسپنر کو اچھا کھیلتے ہیں لیکن آسٹریلوی انتظامیہ 2 لیگ اسپنرز کی باؤلنگ کے باوجود میتھیو ویڈ کو اوپر بلے بازی کے لیے نہ بھیج سکی۔
ایک طرف وکٹیں گر رہی تھی تو دوسری طرف سے ایرون فنچ مشکلات کا شکار تھے۔ باؤنڈریز لگانا تو دُور کی بات سنگل لینا بھی انگلینڈ کے باؤلرز اور فیلڈرز نے دشوار بنادیا تھا۔
آسٹریلوی ٹیم بلے بازی میں مشکلات کا شکار تھی تو سوشل میڈیا پر اپنا ویک اینڈ خراب ہونے پر لوگ ناراض تھے۔ خیر، میتھیو ویڈ، ایشٹن ایگار اور پیٹ کمنز کی باؤنڈریز نے اسکور 125 تک پہنچا دیا ورنہ ایک وقت میں 100 رنز تک پہنچنا بھی مشکل لگ رہا تھا۔ انگلینڈ کی جانب سے سب سے کامیاب باولر کرس جارڈن رہے جنہوں نے محض 17 رنز دے کر 3 کھلاڑیوں کا شکار کیا۔
اب پہلی ہی اننگ میں دونوں ٹیموں میں کوئی مقابلہ نہیں تھا تو دوسری اننگ میں کہانی کیسے بدل سکتی تھی۔ پہلے 2 اوورز ذرا خاموش ضرور گزرے لیکن پھر جیسن روئے نے لاٹھی چارج کا آغاز کردیا۔ جلد ہی کمان جوز بٹلر نے اپنے ہاتھ میں لے لی، اور بٹلر تو اس میچ میں کچھ خاص ہی موڈ میں تھے۔
پہلے مچل اسٹارک کو ایک اوور میں 2 چھکے رسید کیے اور اسٹارک کے اگلے اوور میں 2 چوکے اور پھر ایڈم زیمپا کی دھلائی کی۔ اس دوران روئے اور ڈیوڈ ملان کی وکٹیں ضرور گریں لیکن بٹلر کے لاٹھی چارج میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئی۔
اس فتح کے بعد انگلینڈ کو اپنے گروپ میں ٹاپ پوزیشن سے شاید ہی کوئی ہٹاسکے، کیونکہ اس بڑی فتح کے بعد اس کا رن ریٹ بہتر ہوکر 3.948 تک پہنچ گیا ہے۔ لیکن اس گروپ میں دوسری پوزیشن کس ٹیم کو ملے گی، یقیناً اس کے لیے سخت مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔