انگلینڈ گروپ 1 میں نمبر وَن اور 'یورپ کا دشمن' نمیبیا
کسی کا کیا خوب شعر ہے کہ
چڑھتے نہیں اب میری نظر میں مہ و خورشید
دیکھا تجھے کیا میں نے کہ اِترا گئیں آنکھیں
ٹی20 ورلڈ کپ 2021ء کے آغاز ہی میں پاکستان کے دو شاندار میچ اور جاندار فتوحات دیکھنے کے بعد تو ہمیں کوئی مقابلہ نہیں بھا رہا۔ لیکن یاد رکھیں کہ جو بھی میچ ہو رہے ہیں، ان کے اثرات نہ صرف دیگر ٹیموں بلکہ خود پاکستان پر بھی پڑنے والے ہیں، اس لیے ہر، ہر مقابلہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔
انگلینڈ بمقابلہ بنگلہ دیش
بدھ کو ورلڈ کپ میں دو میچ کھیلے گئے۔ پہلا مقابلہ گروپ 1 میں بنگلہ دیش اور انگلینڈ کے درمیان کھیلا گیا اور اس میچ کی ایک تاریخی اہمیت بھی تھی کہ دونوں ٹیموں کے مابین یہ پہلا ٹی20 انٹرنیشنل میچ تھا۔
جی ہاں! مختصر ترین فارمیٹ کی کرکٹ کے آغاز کو اب تقریباً 16 سال ہونے کو ہیں لیکن ڈیڑھ دہائی سے بھی زیادہ کے عرصے میں 'بابائے کرکٹ' نے کبھی بنگلہ دیش کے خلاف کوئی ٹی20 نہیں کھیلا تھا۔
ایک طرف یہ اہمیت تو دوسری جانب بنگلہ دیش کے لیے ورلڈ کپ میں مقابلے کی دوڑ میں واپس آنے کا دباؤ۔ اپنے پہلے مقابلے میں 'بنگال ٹائیگرز' سری لنکا کے خلاف 172 رنز کے ہدف کا دفاع کرنے میں بھی ناکام رہے تھے۔ جبکہ اس کے برعکس انگلینڈ کا پہلا وار ہی بہت کاری تھا اور اس نے سب کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی جب دفاعی چیمپیئن ویسٹ انڈیز کو صرف 55 رنز پر ڈھیر کیا تھا۔
تو ابوظہبی میں جب 'اصلی' اور 'زخمی شیروں' کا سامنا ہوا تو بڑے مقابلے کی توقع تھی، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ انگلینڈ کی تباہ کُن باؤلنگ کے سامنے بنگلہ دیش کا حشر ویسٹ انڈیز جیسا تو نہیں ہوا، لیکن نتیجہ ہرگز مختلف نہیں تھا۔
پاور پلے میں ہی بنگلہ دیش کی صرف 26 رنز پر 3 وکٹیں گر گئیں۔ مشفق الرحیم اور کپتان محمود اللہ کی تجربہ کار جوڑی نے معاملات سنبھالنے کی کوشش تو کی لیکن ان کی بھی ایک نہ چلی۔ جب 20 اوورز مکمل ہوئے تو بنگلہ دیش صرف 124 رنز پر کھڑا تھا، اس میں بھی ٹیل اینڈر نسوم احمد کے 19 رنز شامل تھے۔
اس کے بعد باقی کیا رہ گیا تھا؟ انگلینڈ کے لیے ایک اور بڑی کامیابی کا راستہ بالکل صاف تھا۔ اس نے جیسن روئے کی 38 گیندوں پر 61 رنز کی طوفانی اننگ کی بدولت یہ ہدف 15ویں اوور میں ہی حاصل کرلیا، وہ بھی صرف ایک وکٹوں کے نقصان پر۔
تصور کیجیے کہ پہلے مقابلے میں نویں اوور اور دوسرے میں 29 گیند پہلے ہی جیت جانے سے انگلینڈ کا نیٹ رن ریٹ کہاں پہنچ گیا ہوگا؟ آپ کے اندازوں سے بھی آگے +3.61۔
ان شاندار فتوحات کے ساتھ انگلینڈ گروپ 1 میں نمبر ون پوزیشن پر ہے لیکن اسے اپنے اگلے میچ آسٹریلیا، سری لنکا اور جنوبی افریقہ سے کھیلنے ہیں جو تینوں سخت حریف ہیں۔ اس لیے انگلینڈ کو کارکردگی میں یہی تسلسل جاری رکھنا ہوگا، ورنہ ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش جیسے نسبتاً کمزور حریفوں کے خلاف یہ کامیابیاں ہوسکتا ہے کسی کام نہ آئیں۔
دوسری جانب بنگلہ دیش کے لیے اب صورتحال کافی مایوس کُن ہے۔ اس کے آئندہ تینوں میچ بھی آسان نہیں۔ ویسٹ انڈیز کے بعد اسے جنوبی افریقہ اور پھر آسٹریلیا کا مقابلہ کرنا ہے یعنی سیمی فائنل کی امیدیں موہوم سی ہیں۔
ایسی بھیانک کارکردگی کا سلسلہ محض سپر 12 مرحلے میں نظر نہیں آیا، بلکہ کوالیفائنگ راؤنڈ میں بھی بنگلہ دیش کو اسکاٹ لینڈ سے ایک شکست ہوئی تھی اور وہ اس گروپ میں ٹاپ پوزیشن حاصل نہیں کر پایا تھا۔ یہی ہار بنگلہ دیش کے پاک-بھارت گروپ میں نہ آ پانے کی وجہ بنی اور ٹیم 'گروپ آف ڈیتھ' میں چلی گئی جہاں اسے پے در پے شکستوں کا سامنا ہے۔
یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ 'ٹائیگرز' اب کسی معجزے کے منتظر ہیں۔
نمیبیا بمقابلہ اسکاٹ لینڈ
دوسری جانب گروپ 2 میں اسکاٹ لینڈ اور نمیبیا کے درمیان ایک 'اہم' مقابلہ دیکھنے کو ملا۔ اہم اس لیے کیونکہ اگر سب کچھ توقعات کے مطابق ہوتا ہے تو یہ مقابلہ ان ٹیموں کو آخری نمبر پر آنے کی ہزیمت سے بچائے گا۔
کرکٹ میں پہلے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ایک نظر میں تو یہی لگتا ہے کہ پاکستان، بھارت، نیوزی لینڈ اور افغانستان کی موجودگی میں نمیبیا اور اسکاٹ لینڈ کے امکانات کم ہی ہیں۔ اس لیے ان کے لیے کوئی پوائنٹ حاصل کرنے کا سنہرا موقع یہی میچ تھا۔
دونوں ٹیمیں کوالیفائنگ مرحلے میں بہت عمدہ کارکردگی دکھا کر پہنچی ہیں، اسکاٹ لینڈ نے وہاں بنگلہ دیش کو شکست دے کر اپنے گروپ میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ نمیبیا نے بھی خوب کمالات دکھائے تھے اور نیدرلینڈز اور آئرلینڈ جیسی خود سے کہیں مضبوط ٹیموں کو شکست دے کر سپر 12 تک پہنچا۔
یہاں نمیبیا کو یورپ کی تیسری ٹیم اسکاٹ لینڈ کا شکار کرنا تھا، جس نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور چند لمحوں میں یہ فیصلہ درست ثابت ہوگیا۔ پہلے ہی اوور میں روبن ٹرمپل مین نے 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے سنسنی پھیلا دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تینوں بلے باز صفر پر آؤٹ ہوئے جبکہ چھٹے اوورز تک 18 رنز پر اسکاٹ لینڈ کی 4 وکٹیں گر چکی تھیں۔
یہاں خطرہ پیدا ہوگیا کہ کہیں اسکاٹش بیٹنگ لائن کا حشر افغانستان والے مقابلے جیسا نہ ہو جہاں وہ 191 رنز کے تعاقب میں صرف 60 رنز پر ڈھیر ہو گئی تھیں۔
یہاں مائیکل لیسک نے میدان سنبھالا۔ یہ وہی بلے باز ہیں جنہوں نے 2014ء میں انگلینڈ کے خلاف ایک ون ڈے مقابلے میں 16 گیندوں پر 42 رنز بنائے تھے اور انگلش باؤلرز کو 5 چھکے رسید کیے تھے۔ اس میچ میں بھی انہوں نے 27 گیندوں پر 44 رنز بنا کر اپنی اہمیت ثابت کی۔ وہ 17ویں اوور تک کریز پر موجود رہے اور عین اس وقت آؤٹ ہوئے جب ان کی بہت سخت ضرورت تھی۔ ان کے آؤٹ ہوجانے کی وجہ سے اسکاٹ لینڈ آخری 4 اوورز کا بھرپور فائدہ نہ اٹھا سکا اور اننگ محض 109 رنز پر تمام ہوگئی۔
یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ نمیبیا کی باؤلنگ نے جتنا اچھا آغاز کیا، اختتام بھی اتنا ہی اعلیٰ تھا کیونکہ انہوں نے آخری 22 گیندوں پر صرف 16 رنز دیے۔ یہ اختتامی اوورز بعد میں کتنے اہم ثابت ہوئے، اس کا اندازہ نمیبیا کی بیٹنگ سے ہوگیا۔
نمیبیا نے 110 رنز کے تعاقب میں محتاط آغاز لیا۔ نویں اوور میں 50 رنز تک اس کا محض ایک کھلاڑی آؤٹ تھا یعنی وہ فتح کی جانب بخوبی قدم بڑھا رہا تھا۔ لیکن رن اوسط بڑھانے کی کوشش میں اس کا مڈل آرڈر لڑکھڑا گیا۔
محض 17 رنز کے اضافے پر 3 وکٹیں گر گئیں اور ٹیم دباؤ میں آگئی۔ یہاں لاہور قلندرز کے مشہور کھلاڑی ڈیوڈ ویزے نے یوہانس اسمٹ کا بھرپور ساتھ دیا اور دونوں ٹیم کو فتح کے بہت قریب لے آئے۔
جب محض 8 رنز کی ضرورت تھی تو مسلسل 2 اوورز میں 2 کھلاڑی آؤٹ ہوگئے اور معاملہ آخری اوور تک چلا گیا جہاں نمیبیا کو ایک رن درکار تھا اور اسمٹ نے چھکے کے ساتھ میچ کا خاتمہ کردیا۔ ان کی 23 گیندوں پر 32 رنز کی اننگ فیصلہ کن ثابت ہوئی۔
اندازہ لگائیے اگر اسکاٹ لینڈ اپنی بیٹنگ کے آخری 4 اوورز میں کچھ زیادہ رنز بنا لیتا تو میچ کتنا سنسنی خیز ہوتا۔ بہرحال، تمام تر کوششوں کے باوجود اسکاٹ لینڈ ہدف کا دفاع نہیں کر پایا اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کپتان کائل کوئٹزر کی کمی انہیں بُری طرح محسوس ہوئی، جو زخمی ہونے کی وجہ سے نہیں کھیلے تھے۔
نمیبیا سپر 12 میں اپنا پہلا ہی میچ جیت جانے کے بعد اب گروپ 2 میں پاکستان اور افغانستان کے بعد تیسرے نمبر پر آچکا ہے۔ یہاں نیوزی لینڈ اور بھارت کا کوئی پوائنٹ نہیں ہے جو پاکستان کے ہاتھوں شکست کھا چکے ہیں اور اسکاٹ لینڈ مسلسل 2 شکستوں کے بعد پریشان حال ہے۔
دوسری طرف گروپ 2 میں ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کی حالت قابلِ رحم ہے، جو اپنے ابتدائی دونوں میچ ہار کر سب سے نیچے پڑے ہوئے ہیں اور کوئی معجزہ ہی انہیں اس صورتحال سے نکال سکتا ہے۔