قومی ٹیم نے کیویز کے خلاف اپنے تمام جوہر دکھا دیے
لگاتار 2 فتوحات، وہ بھی فیورٹ سمجھی جانے والی ٹیموں کے خلاف، یہ سب کچھ پاکستانی اسٹائل نہیں لگتا ناں؟ ایسا لگتا ہے کچھ انہونی سی ہو رہی ہے۔ پہلے میچ کی تو فتح بھی کچھ 'غیر پاکستانی' سی تھی، البتہ دوسرے میں فتح کا طریقہ ایک حد تک پاکستانی رہا۔
جب سب ہی اچھی باؤلنگ کررہے تھے تو حسن علی اور شاداب خان نے اپنے ایک، ایک اوورز میں اسکور دے دیا، جب کچھ بہترین کیچ لیے گئے اور زبردست فیلڈنگ کی گئی تب ہی آصف علی اور شعیب ملک نے آسان گیندیں چھوڑ بھی دیں اور بیٹنگ تو شروع سے آخر تک مکمل پاکستانی اسٹائل میں تھی کہ ایک آسان ہدف کو مشکل بنا کر آخر میں آرام سے جیت گئے۔
پاکستان اور نیوزی لینڈ کے میچ پر بات کرنے سے پہلے اس دن ویسٹ انڈیز اور جنوبی افریقہ کے درمیان کھیلے گئے میچ پر تبصرہ کرلیتے ہیں جہاں ویسٹ انڈین بیٹسمین ٹورنامنٹ میں مسلسل دوسری بار ناکام ہوئے۔
ویسٹ انڈیز بمقابلہ جنوبی افریقہ
اس سیزن میں جنوبی افریقہ کے خلاف ویسٹ انڈیز کی کارکردگی اچھی نہیں رہی، پہلے وہ اپنے ہی گھر میں شکست سے دوچار ہوئی اور پھر ورلڈ کپ کے اہم میچ میں بھی نتیجہ وہی رہا۔
لیکن جب ہوم سیریز میں ویسٹ انڈیز کو شکست ہوئی تو زیادہ پریشانی اس لیے نہیں تھی کیونکہ ان کی بیٹنگ لائن میں ایک کرنٹ نظر آرہا تھا، وہ مخالف ٹیموں کے لیے خطرناک سمجھے جارہے تھے اور ورلڈکپ کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگ گئی تھیں۔ لیکن متحدہ عرب امارات میں آمد کے بعد سے نہ ویسٹ انڈین گیند باز کچھ کمال کر پائے ہیں اور نہ ہی بلے بازوں نے کوئی کارنامہ دکھایا ہے، سونے پر سہاگہ یہ کہ دونوں میچوں میں کیرن پولارڈ ٹاس میں شکست کا سامنا کر بیٹھے۔
ٹاس پر ہی دھماکے دار خبر یہ ملی کہ جنوبی افریقی وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کوک ذاتی وجوہات کی بنا پر یہ میچ نہیں کھیل رہے۔ تھوڑی ہی دیر بعد خبریں آنے لگیں کہ ڈی کوک نے جنوبی افریقہ کرکٹ بورڈ کی جانب سے 'بلیک لائیوز میٹر' کے معاملے پر میچ سے پہلے علامتی طور پر گھٹنہ ٹیکنے سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ سے انہیں میچ سے باہر بٹھا دیا گیا۔
کوئنٹن ڈی کوک اس سال پاکستان کے خلاف ون ڈے سیریز میں بھی اس وقت منفی تاثر چھوڑ بیٹھے تھے جب انہوں نے فخر زمان کو 193 کے اسکور پر دھوکے سے رن آؤٹ کیا تھا۔
ویسٹ انڈیز کی بیٹنگ کا آغاز ہوا تو یوں لگا جیسے ایک جانب ایون لوئس تو ٹی20 میچ کھیل رہے ہیں لیکن دوسری جانب لنڈل سمنز ٹیسٹ اننگ سمجھ کر بیٹنگ کررہے ہیں۔ ایک طرف لوئس چھکوں کی بوچھاڑ کر رہے ہیں تو دوسری طرف سمنز کے لیے سنگل بنانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا تھا۔ ڈی کوک کی جگہ وکٹ کیپنگ کے فرائض انجام دینے والے ہینرک کلاسن نے سمنز کا کیچ چھوڑا تو خیال ہوا کہ یہ غلط ہوگیا، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ جنوبی افریقہ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا کیونکہ سمنز اس کے بعد مزید سست ہوگئے۔
ایک مناسب بیٹنگ وکٹ پر 35 گیندوں تک سمنز بغیر باؤنڈری لگائے کھڑے رہے اور یہی وہ اننگ تھی جس نے ویسٹ انڈیز کی شکست کی بنیاد رکھ دی تھی۔ شاید سمنز کی اس اننگ کا ازالہ ممکن ہوجاتا مگر لوئس کے علاوہ ویسٹ انڈیز کے تمام بڑے ہِٹرز کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے اور یوں جنوبی افریقہ کے سامنے ایک مناسب سا ہدف ہی رکھا جاسکا۔
ایک ایسا ہدف جس کے دفاع کے لیے ویسٹ انڈیز کو مسلسل وکٹوں کی ضرورت تھی۔ ٹی20 کرکٹ کے نمبر ون باؤلر تبریز شمسی تو اس میچ میں ناکام رہے لیکن اینرچ نوکیا نے جہاں ویسٹ انڈین بلے بازوں کے لیے رنز بنانا محال کیے رکھا وہیں ڈوین پریٹوریس نے صرف 2 اوورز میں 3 وکٹیں حاصل کرتے ہوئے ویسٹ انڈیز کی اننگ کو کسی بڑے اسکور تک جانے سے روک دیا۔
ویسٹ انڈیز کو فتح کے لیے وکٹوں کی ضرورت تھی اور پہلے ہی اوور میں مخالف کپتان ٹیمبا بوواما نے ایک ناممکن رن دوڑنے کی کوشش کی اور وکٹ گنوا بیٹھے، مگر بعد میں آنے والوں نے کوئی غلطی نہیں کی اور سکون سے رنز بناتے رہے۔
ویسٹ انڈیز کی ٹیم ٹورنامنٹ میں مسلسل دوسری شکست کا سامنا کرچکی ہے اور یوں سپر 12 مرحلے کے آغاز کے چوتھے ہی دن، جبکہ اس مرحلے میں صرف 7 ہی میچ ہوئے ہیں، دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز بہت حد تک سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوچکی ہے۔
پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ
بابر اعظم مسلسل دوسرے میچ میں ٹاس کے معاملے میں خوش قسمت رہے اور پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ شاہین آفریدی شروع میں وکٹیں لینے میں کامیاب نہیں ہوسکے مگر انہوں نے عماد وسیم کے ساتھ اسکور روکے رکھا۔
اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی جانب سے کافی کچھ نیا نیا سا ہے۔ پہلے میچ میں انڈیا کے خلاف ہدف کے تعاقب کو رہنے بھی دیں تو حارث رؤف کی باؤلنگ ایک اور معمہ ہے۔ حارث رؤف بہترین اسٹرائیک باؤلر ہیں، تیز رفتار گیندیں کرتے ہیں اور وکٹیں گراتے ہیں پر رنز روکنا ذرا مختلف سا کام ہے مگر حیران کن طور پر اس ٹورنامنٹ میں وہ رنز روکنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ 150 کی رفتار سے تیز گیندیں بھی اس کنٹرول سے پھینک رہے ہیں جس کنٹرول سے 125 کی رفتار سے سست گیندیں۔ ان کے یارکرز اور باؤنسرز دونوں ہی مہلک ثابت ہو رہے ہیں۔
انڈیا کے خلاف بھی حارث رؤف نے ایک بہترین اسپیل کیا تھا لیکن وکٹ صرف ایک ہی حاصل کرپائے تھے، نیوزی لینڈ کے خلاف نہ صرف حارث رؤف نے پرانی گیند سے وکٹیں حاصل کیں بلکہ پاور پلے کے دوران اوور ملنے پر نیوزی لینڈ کی پہلی وکٹ بھی گرائی۔ حارث رؤف کے ساتھ ساتھ شاداب خان کی باؤلنگ بھی ابھی تک کافی اثر انگیز ثابت ہوئی ہے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کے تیسرے اوور میں اگرچہ وہ اسکور دے بیٹھے لیکن پہلے 2 اوورز میں ناقابلِ یقین باؤلنگ کا مظاہرہ کیا۔
نیوزی لینڈ کی اننگ کی خاص بات یہ تھی کہ انڈیا کی طرح 10 اوورز کے اختتام پر نیوزی لینڈ کا اسکور 3 وکٹوں کے نقصان پر 60 رنز اور 15 اوورز کے اختتام پر 4 وکٹوں کے نقصان پر 100 رنز رہا۔ پاکستان کے لیے خوش آئند بات یہ رہی کہ اگلے 5 اوورز میں انڈیا کی طرح نیوزی لینڈ 51 کے بجائے 34 رنز ہی بنا سکی ورنہ ممکن ہے کہ اضافی 17 رنز نتیجہ خیز ثابت ہوتے۔
بابر اعظم کے آوٹ ہوتے ہی وکٹیں گرنے کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا، اور 16 اوورز کے اختتام پر قومی ٹیم کے 98 رنز تھے اور آدھی ٹیم پویلین لوٹ چکی تھی۔ اب اگلے 4 اوورز یعنی 24 گیندوں پر 37 رنز درکار تھے۔ یہ وہ موقع تھا جب نیوزی لینڈ میچ جیتنے کے لیے فیورٹ ہوچکا تھا مگر آصف علی نے خود پر ہونے والی شدید تنقید کا جواب دینے کی ٹھان لی تھی۔
آصف علی نے 17ویں اوور میں ٹم ساوتھی کو 2 لگاتار چھکے لگاکار پریشر ایک بار پھر نیوزی لینڈ ٹیم پر ڈال دیا۔ اس اوور میں 13 رنز بنے اور اب 18 گیندوں پر 24 رنز چاہیے تھے، یعنی میچ کسی حد تک ہاتھ میں آچکا تھا.
ان 2 چھکوں کے بعد ایک گیند آصف کے سر پر لگی جس کے بعد کافی دیر آصف کا سر چکراتا رہا اور فزیو کو 2 بار انہیں چیک بھی کرنا پڑا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور ایک اوور بعد جب ٹرینٹ بولٹ نے باؤنسر کرنے کی کوشش کی تو آصف نے کوئی رعایت نہیں دی اور گیند ایک بار پھر مڈوکٹ باؤنڈری کے باہر تھی۔
کیا یہ آصف علی کا شاہد آفریدی مومنٹ تھا؟ جانے کیوں اس اننگ سے شاہد آفریدی کی یاد تازہ ہوگئی۔ شعیب ملک اپنے تمام تر تجربے کے ساتھ پہلے عماد وسیم کو سمجھاتے رہے اور پھر آصف علی کے ساتھ میچ کو فتح کی طرف لے جاتے ہوئے پائے گئے۔ درمیان میں جب لگا کہ مطلوبہ رن ریٹ بڑھ رہا ہے تو چپکے سے خود بھی باؤنڈری لگا دی۔
پہلے میچ کی فتح اگرچہ مکمل طور پر یکطرفہ تھی لیکن اس میچ میں پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنے مداحوں کو سبھی کچھ دکھا دیا۔ مگر اچھی بات یہ ہوئی کہ 2 میچ کے بعد پاکستانی ٹیم پوائنٹس ٹیبل پر سرفہرست ہے اور اب گروپ میں اس کے نسبتاً آسان میچ باقی ہیں۔
پاکستانی ٹیم کی اس کارکردگی کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستانی ٹیم باقی تینوں میچ بھی جیت کر اپنے گروپ میں پہلی پوزیشن حاصل کرلے گی۔
تبصرے (2) بند ہیں