صائمہ سلیم: پاکستان کی ہیلن کیلر
میں دُکھی ہوں
مجھے کوئی راہ سُجھائی نہیں دیتی
میں کدھر جاؤں؟
یاس و قہر کا ایسا غلبہ طاری ہے جس کی کوئی حد نہیں
جس طرف جاتا ہوں مجھے لگتا ہے جہنم میں محو پرواز ہوں
مجھے لگتا ہے کہ ایک جہنم میرے اندر برپا ہے
جو پاتال کی گہرائی میں اپنی بانہیں کھولے مجھے خود میں سمونے کے لیے ڈرا رہی ہے
جس جہنم کو میں بھگت رہا ہوں وہ جنت محسوس ہوتی ہے
— جان ملٹن
وہ 10 اگست 1984ء کو پیدا ہوئی۔ انہیں بچپن سے ہی پڑھائی کا بہت شوق تھا مگر ایک موروثی مرض نے ان کی آنکھوں کی بینائی چھیننا شروع کردی اور وہ 13 سال کی عمر میں دیکھنے جیسی عظیم نعمت سے محروم ہوگئیں۔
ان کے والدین اپنی بیٹی سے بے پناہ پیار کرتے تھے، انہوں نے اپنی بیٹی کی حوصلہ افزائی کی اور عزیز جہاں ٹرسٹ اسکول سے ابتدائی تعلیم دلوائی۔ انہوں نے بی اے کا امتحان انگلش لٹریچر میں فرسٹ ڈویژن میں کنرڈ کالج فار وومن یونیورسٹی سے پاس کیا اور وہیں سے اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے اپنے ملک کی خدمت کا خواب دیکھا۔ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہیں بہت جدوجہد کرنی پڑی۔
سی ایس ایس کے امتحانات کا انعقاد کروانے والے فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) نامی ادارے نے کمپیوٹر کے ذریعے ان کا امتحان لینے سے انکار کردیا۔ تاہم ان کی کاوشیں رنگ لائیں اور 2005ء میں صدرِ پاکستان کی طرف سے ایک آرڈیننس منظور ہوا جس میں نابینا افراد کو کمپیوٹر کے ذریعے امتحان دینے کی اجازت دے دی گئی۔
اسی قانون کے تحت انہوں نے سی ایس ایس 2007ء کا امتحان دیا اور انہوں نے مجموعی طور پر چھٹی اور خواتین میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد جب ان کی تعیناتی کا مرحلہ آیا تو ایف پی ایس سی نے صرف 4 گروپس (اکاؤنٹس، کامرس، انفارمیش اور پوسٹل) میں تعیناتی کا آپشن دیا۔ مگر وہ تو فارن سروس میں جانا چاہتی تھیں، جس کا یہاں کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔
پڑھیے: ہمارے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے فرینکنسٹائن
انٹرویو کے دوران پینل کی طرف سے بھی یہ سوال کیا گیا کہ، 'کیا وہ ان کی تعیناتی کے لیے پیش کیے گئے گروپس سے مطمئن ہے؟' تو انہوں نے واضح جواب دیا کہ ’نہیں، میں مطمئن نہیں ہوں۔ مقابلے کے امتحان کے بعد حاصل کردہ پوزیشن کی بنا پر مجھے گروپ میں تعینات کیا جائے'۔
ان کی درخواست کو اس وقت کے وزیرِاعظم نے منظور کرلیا۔ اس طرح وہ 2009ء میں پاکستان کی پہلی قوتِ بینائی سے محروم سفارت کار بن گئیں۔ آج کل وہ سیکریٹری برائے انسانی حقوق جنیوا، اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کے لیے خدمات سرانجام دے رہی ہیں اور ہم انہیں 'صائمہ سلیم' کے نام سے جانتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس کے موقعے پر انہوں نے پاکستان کے خلاف بھارتی الزامات کا جواب بھرپور طریقے سے دیا۔ جنرل اسمبلی میں پہلی بار کسی پاکستانی نے 'بریل' کے ذریعے پڑھ کر جواب دیا۔ بے شک پاکستان کو صائمہ سلیم جیسی باہمت خاتون پر فخر ہے۔ انہیں پاکستان کی 'ہیلن کیلر' بھی کہا جاسکتا ہے کہ جنہوں نے جسمانی معذوری کو اپنی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔
ہمیں ایسے رول ماڈلز کی تشہیر ملکی و غیر ملکی سطح پر کرنی چاہیے تاکہ دیگر لوگوں کا بھی حوصلہ بڑھے۔ صائمہ سلیم کی تعلیم کے ساتھ لگن جاری رہی اور 2019ء میں انہوں نے ایل ایل ایم کی ڈگری بین الاقوامی قانون (اسپیشلائزیشن اِن انٹرنیشنل ہیومن رائٹس لا اینڈ انٹرنیشنل ہیومنٹیرین لا) میں یونیورسٹی آف جنیوا (سوئٹزرلینڈ) سے حاصل کی۔
اس سے پہلے وہ 2012ء میں فل برائٹ اسکالر شپ پر جارج ٹاؤن یونیورسٹی آف فارن سروس بھی گئیں۔ وہ لکھاری اور موٹیویشنل اسپیکر بھی ہیں۔ انہیں خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر فاطمہ جناح گولڈ میڈل اور بہترین تعلیمی کارکردگی پر قائدِاعظم گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا۔
ان کے بھائی یوسف سلیم پاکستان کے پہلے قوتِ بینائی سے محروم جج ہیں۔ ان بہن بھائیوں نے عزم و ہمت کی ایک مثال قائم کی ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ اگر ارادے پختہ ہوں تو کسی بھی حال میں منزل پائی جاسکتی ہے۔ ان روشن مثالوں کو معاشرے کے سامنے رکھا جائے تاکہ تعلیم کی اہمیت سب کو معلوم ہوتی رہے۔
یقیناً تعلیم ہی وہ واحد کنجی ہے جس سے ہم تیز ترین ترقی کا در کھول سکتے ہیں۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ طبقوں میں بٹے ہوئے ہمارے تعلیمی نظام کی مکروہیت اب مزید واضح ہونے لگی ہے۔ معیشت کو کورونا کے جھٹکے لگنے کے بعد مہنگائی کا ایسا طوفان آیا ہے جس نے عوام کی قوتِ خرید کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ تعلیمی اداروں کی فیسیں والدین کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہیں۔ میرے علم میں ایسے کئی لوگ ہیں جو فیسوں کے مسائل کی وجہ سے بچوں کے اسکول بدلنے پر مجبور ہوئے۔
چلیے تسلیم کرلیتے ہیں کہ نجی اسکول 'مافیا' کا روپ دھار چکے ہیں، وہ تو فیسیں کم نہیں کرتے مگر سرکاری یونیورسٹیوں کی فیسوں میں جو لگاتار اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ اسی فیسوں میں اضافے کے باعث بہت سے سفید پوش لوگ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے سے قاصر ہوچکے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ کم از کم سرکاری یونیورسٹیوں کی فیسیں تو عام عوام کی پہنچ میں رکھے؟ ایک مزدور یا دیہاڑی دار جو 700 سے ایک ہزار روپے ایک دن میں کماتا ہے وہ اپنے بچے یا بچی کی 40 سے 50 ہزار روپے فی سمیسٹر فیس کہاں سے دے گا؟
تعلیم، صحت اور امن و امان تو بنیادی ضروریات ہیں جن کو پورا کرنا کسی بھی ملک میں حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حکومت نے جس طرح احساس پروگرام شروع کیا اسی طرح یونیورسٹیوں کے طالبِ علموں کی ایک سمیسٹر کی فیس ہی معاف کردی جاتی تو کتنا اچھا ہوتا۔
پڑھیے: ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ بیٹیاں پرایا نہیں اپنا دھن ہیں!
پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی عدم استحکام اور ناپائیدار پالیسیاں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مؤقف و کارکردگی سے لاکھ اختلاف سہی مگر ان کے دور میں یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم طالبِ علموں کی فیس 'ری فنڈنگ' کی پالیسی شاندار تھی، جس کی بدولت لاکھوں طلبہ نے اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ یعنی جن طلبہ کے نمبر 60 فیصد سے زیادہ ہوتے تھے انہیں سمیسٹر کی آدھی فیس کچھ عرصہ بعد واپس دے دی جاتی تھی۔
نواز حکومت کے جاتے ہی اس پالیسی کو ختم کردیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس پالیسی کو جاری رکھا جاتا یا مزید بہتری لائی جاتی، یکسر ختم نہ کیا جاتا۔ اس کی جگہ ایک نئی اسکالرشپ متعارف کروا دی گئی جو اچھی پیش رفت تھی مگر اس اسکالرشپ سے بڑی تعداد میں طلبہ مستفید نہیں ہورہے۔ حکومت کو اس طرف توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
دوسری طرف ایک خوش آئند اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ جنوبی پنجاب (میرا آبائی علاقہ) کے شہروں کی لڑکیوں میں 'موٹر سائیکل' کے استعمال کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
یوں وہ لڑکیاں جو اسکول یا کالج رکشہ، بس اور وین کے ذریعے نہیں جاسکتی تھیں انہوں نے موٹر سائیکل پر جانا شروع کردیا ہے۔ ان لڑکیوں کی تعداد اگرچہ زیادہ نہیں ہے مگر یہ ایک اچھا آغاز ہے جس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ پاکستان کی تقریباً 51 فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ اگر وہ ملکی ترقی میں فعال کردار ادا کریں تو مستقبل سے اچھی امید باندھی جاسکتی ہے۔
تبصرے (5) بند ہیں