ویکسینیشن آپ کے نومولود کے لیے کیوں ضروری ہے؟
کیا ویکسین لگوانے سے میرا بچہ واقعی موذی بیماریوں سے بچ سکتا ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جو والدین کے ذہنوں میں تشویش کا باعث ہوتا ہے، وہ یہ سوال نہ صرف خود سے کررہے ہوتے ہیں بلکہ اکثر ایسے سوالات ڈاکٹرز اور اہل خانہ کے بزرگوں سے بھی کیے جاتے ہیں۔
ان سوالات کے جواب میں اکثر منقسم رائے سامنے آتی ہے ڈاکٹر ویکسین کی حمایت کرتے ہیں تو دوسری جانب بزرگ اپنے دور کے قصے سنارہے ہوتے ہیں جب ویکیسن کا وجود ہی نہیں تھا یا اس وقت اس پر تحقیق کی جارہی تھی۔
گزشتہ سال دنیا میں پھیلنے والے انتہائی خطرناک کورونا وائرس نے جب انسانوں کو اپنا نوالہ بنایا اور مزید زندگیوں کے لیے اس کے خطرات بڑھتے گئے تو جہاں کچھ ممالک کی حکومتوں نے اس سے نمٹنے کا راستہ تلاش کرنے کے لیے میڈیکل سائنس سے وابستہ ماہرین کی خدمات حاصل کیں وہیں دنیا کے بڑی ادویات ساز کمپنیوں نے بھی وائرس کے خلاف مؤثر علاج کی تلاش کا کام شروع کیا۔
مزید پڑھیں: پولیو ویکسین کی کہانی: اس میں ایسا کیا ہے جو ہر سال 30 لاکھ زندگیاں بچاتی ہے
بالآخر کئی ماہ کی کوششوں اور وسائل کے استعمال کے بعد آخر کار وائرس سے فوری طور پر نمٹنے کے لیے حفاظتی ویکیسن دریافت کرلی گئی یہ وائرس کا مستقل علاج تو نہیں تھا لیکن فوری طور پر وائرس کے خلاف مؤثر تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک آلہ کار ہے، یہ ویکسین پہلے سے موجود دیگر بیماریوں کے خلاف مؤثر طریقے سے کام کرنے والی ویکسین کے نمونوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائی گئی تھی یعنی متعلقہ بیماری کا باعث بننے والے مرے ہوئے وائرس (Dead virus) یا بیماری کے ایسے وائرسز اور بیکٹیریا جو کسی بھی صورت میں اثر انداز نہیں ہوسکتے یا یوں کہیں کہ وہ اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ بیماری کی وجہ بن سکیں۔
آپ کے بچے کے لیے ویکسین کیوں ضروری ہے؟
صحت کے عالمی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ویکسین واحد آسان راستہ ہے جس کے ذریعے آپ اپنے بچوں کو موذی امراض کا شکار ہونے سے قبل محفوظ کرسکتے ہیں، ویکسین جسم میں ان بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بڑھاتی ہے تاکہ نومولود بچوں کا جسم اس سے محفوظ رہ سکیں۔
ویکسین ان بچوں کے جسم کو موذی قسم کی بیماریوں سے لڑنے کے لیے قدرتی طور پر تیار کرتی ہے، ویکسین میں بشتر مرے ہوئے یا غیر مؤثر وائرس یا بیکٹیریا ہوتے ہیں اس لیے یہ بیماری کی وجہ نہیں ہوسکتے۔
ماہرِ امراض اطفال کیا کہتے ہیں؟
کراچی کے معروف ماہرِ امراضِ اطفال (چائلڈ اسپیشلسٹ)، صدر ایشیا پیسفک پینڈیٹرک ایسوسی ایشن (اے پی پی اے)، سرسید کالج آف میڈیکل سائنسز کے ڈپارٹمنٹ ہیڈ، رکن ای ایم آر او پروفیسر ڈاکٹر اقبال میمن نے بتایا کہ پولیو ایک ایسی موذی بیماری ہے جو پانی اور دیگر ذرائع سے ایک سے کئی میں منتقل ہوسکتی ہے، جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس وقت کمزور ترین حالت میں ہوتا ہے اور دنیا کے ماحول سے واقف نہیں ہوتا، اس کے والدین اس کی دیکھ بھال کررہے ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح پہلی غذائیت کے طور پر بچے کو ماں کا دودھ پلایا جانا چاہیے جو بچوں کی قوتِ مدافعت کے لیے اہم ہوتا ہے لیکن سائنسی تحقیق سے ثابت ہوجانے کے باوجود اکثر اس پر عمل نہیں کیا جارہا۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کی قوت مدافعت میں اضافے کے لیے نومولود بچوں کو ویکسینز لگائی جاتی ہیں اور یہ جلد از جلد لگنی چاہئیں لہذا بچوں کو پولیو کی اورل ویکسین پلانی چاہیے اور 5 سال سے کم عمر بچوں کو لازمی طور پر پولیو کے قطرے پلانے چاہئیں تاکہ وہ اس وائرس سے محفوظ رہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں پولیو وائرس کی معدوم قسم کے کیسز کی تشخیص کا سلسلہ جاری
پروفیسر ڈاکٹر اقبال میمن نے کہا کہ نہ صرف پولیو کے قطرے اہم ہیں بلکہ پولیو کی ویکسین بچوں کی معمول کی ویکسینیشن کے دوران بھی لگائی جاتی ہے تاکہ ان کا مدافعتی نظام مضبوط ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتِ پاکستان نہ صرف ڈائیریا بلکہ نمونیا اور خسرے کی ویکسین کے بھی دو ڈوز لگارہی ہے اور جلد ہی اس حوالے سے ایک اور ویکسین کا اضافہ کیا جائے گا۔
ماہر امراض اطفال نے مزید بتایا کہ اگر بچے ڈائیریا، ہیپاٹائٹس، خسرہ، کھالی کھانسی کا شکار ہوتے ہیں تو ان پر پولیو بھی حملہ کردیتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوجاتی ہے اس لیے بچوں کو ویکسین پلانی چاہیے اور اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
ویکسین بچوں میں کیسے کام کرتی ہے؟
کوئی بھی ویکسین بچوں کے جسم کے قدرتی نظام کو موذی بیماری سے مزید مؤثر طریقے سے دفعہ کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے، جب ویکسینیشن کروائی جاتی ہے تو بچوں میں قوت مدافعت کا نظام اس کے لیے رد عمل دیتا ہے۔
ویکسین مندرجہ ذیل 3 کام کررہی ہوتی ہے:
- ویکیسن بیماری کے وائرس اور بیکٹیریا کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔
- ویکسین بچوں کے جسم میں اینٹی باڈیز پیدا کرتی ہے اور یہ بیماریوں کے خلاف قدرتی طور پر پیدا ہونے والے پروٹینز ہیں۔
- ویکسین کی وجہ سے پیدا ہونے والا قدرتی مدافعت کا نظام مذکورہ بیماری کے بیکٹریا یا وائرس کو یاد رکھتا ہے اور ان کے بچوں کے جسم پر بیماری کے دوبارہ اثر انداز ہونے کی صورت میں یہ دوبارہ مؤثر انداز میں کام شروع کردیتا ہے۔
اسی لیے ویکسین آپ کے بچوں کے لیے انتہائی اہم ہے اور یہ بیماریوں سے تحفظ فراہم کرنے کا ایک آسان طریقہ کار ہے۔
بچوں کو ویکسین کی ضرورت کیوں ہے؟
اس سوال کا جواب ہمیں حکومت سندھ کی جانب سے کراچی کے ضلع شرقی کے علاقے گلزار ہجری میں تعینات پولیو مہم کی سپروائزر ایلیا اصفند نے بتایا، ان کا کہنا تھا کہ نومولود کے جسم میں اتنی قوت مدافعت نہیں ہوتی کہ وہ بیماریوں سے خود کو محفوظ کرسکے، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ماحول کا عادی نہیں ہوتا اور اسے اضافی تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بچوں میں اکثر وائرس منہ کے ذریعے داخل ہوتا ہے کیوں کہ ان کو خوراک کے استعمال کروائی جاتی ہے اوریا تو وائرس اس کے والدین کے ہاتھوں کی وجہ سے یا چمچ کی وجہ سے بچوں میں داخل ہوتا ہے جس سے وہ خوراک حاصل کررہے ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ملک میں پولیو وائرس کی معدوم قسم کے 7 کیسز کی تشخیص
ان کا کہنا تھا کہ اس لیے ماہرین صحت یہ تجویز دیتے ہیں کہ عالمی طور پر تجویز کردہ پولیو ویکسین بچوں کو بروقت فراہم کی جانہ چاہیے تاکہ بچوں کو اس موذی بیماری سے محفوظ رکھا جاسکے۔
ہمیں بچوں کی ویکسینیشن کس وقت کروانی چاہیے؟
ماہرین صحت کا ماننا ہے کہ ایک مرتبہ کسی بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کے لیے لگائی جانے والی ویکسین آپ کو عمر بھر فائدہ پہنچاتی ہے اور بہت ہی ایسی کم بیماریاں ہیں جو آپ کو ویکسینیشن کے باوجود اثر انداز ہوسکتی ہیں۔
اس بارے میں ڈاکٹر کیا کہتے ہیں؟
کراچی کے ایک جنرل فزیشن ڈاکٹر مظہر کا کہنا تھا کہ ویکسین انسانی جسم میں کسی بیماری کے خلاف قوت مدافعت بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے، انہوں نے حال ہی میں سامنے آنے والے کورونا وائرس کا ذکر کیا کہ کس طرح ویکسینیشن اس کے خلاف ایک مؤثر اقدام ثابت ہوا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بیماریوں سے تحفظ کے لیے نومولود یا نوزائیدہ بچوں کی قوت مدافعت بڑھانے کے لیے ویکیسن فراہم کی جانی چاہیے؟ تو ان کا جواب تھا کہ جی بلکل بچوں میں موذی بیماریوں سے قوت مدافعت بڑھانے کے لیے ویکسین کی فراہمی بہت ضروری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ ویکسین لگوانے کے بعد عمر بھر اس فرد میں مذکورہ بیماری کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوجاتی ہے اور بہت کم کیسز میں ایسا ہوتا ہے کہ ویکیسن کے باوجود بیماری آپ کو دوبارہ کسی موقع پر جکڑ لے، (انہوں نے بتایا کہ ایک ہزار میں شاید ہی کسی ایک کیس میں ایسا ہوتا ہو)۔
اس حوالے سے ڈبلیو ایچ او کی رپورٹس بھی کچھ ایسی ہی بات کہتی ہیں کہ کسی بیماری کے خلاف ویکسین لگوانے میں تاخیر بچوں میں بیماریوں کا باعث ہوسکتی ہے کیوں کہ ان بیماریوں کے وائرسز یا بیکٹریا آپ کے ماحول میں موجود ہوتے ہیں اور اکثر یہ بیماریاں کسی ایک فرد کے قوت مدافعت کی وجہ سے اس پر اثر انداز نہیں ہورہی ہوتی لیکن ایسا فرد کسی اور کو بیماری منتقل کرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔
ایسی بیماریاں جن کے خلاف ویکیسن مؤثر دفاعی نظام پیدا کرتی ہیں؟
ڈبلیو ایچ او کی جانب سے فراہم کردہ فہرست کے مطابق پولیو وائرس کے علاوہ ویکسینیشن مذکورہ مندرجہ ذیل بیماریوں کے خلاف مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔
- رحم کا کینسر
- ہیضہ
- کووڈ 19
- ڈپتھیریا
- ایبولا وائرس
- کالا یرقان
- انفلوئنزا
- جاپانی انسیفلائٹس
- خسرہ
- ممپس
- نمونیہ
- ریبیز
- روبیلا
- ٹائیفائیڈ
- ویریسلا
- زرد بخار
بچوں کو ایک ہی وقت میں متعدد بیماریوں سے تحفظ کی ویکسین لگائی جاسکتی ہے؟
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے اپنی رپورٹ میں سائنسدانوں کے حوالے سے بتایا کہ متعدد قسم کی ویکسینیشن ایک ہی وقت میں لگانے سے اس کے منفی یا سائیڈ ایفکٹس نہیں ہوتے ہیں۔
اور خاص طور پر بچے جو یومیہ کی بنیادوں پر متعدد قسم کے جراثیم کا سامنا کررہے ہوتے ہیں اور انہیں مختلف قسم کی بیماریوں کے خلاف مختلف قسم کے قوت مدافعت کی ضرورت ہوتی ہے ان کے ایک سے زائد ویکسینیشن کی فراہمی نقصان کا باعث نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قطرے، انجکشن یا دونوں؟ پولیو ویکسین کے حوالے سے عام سوالات کے جوابات
عالمی صحت کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بچے سب سے زیادہ بیماریوں کے خطرات کا سامنا کرتے ہیں کیوں کہ وہ والدین یا کسی اٹیننڈ کے ذریعے کچھ نہ کچھ خوراک حاصل کررہے ہوتے ہیں جس میں مختلف اقسام کے چراثم ہوسکتے ہیں۔
ادارے کے مطابق مثال کے طور پر ایک ہی وقت میں ڈائیریا، ٹیٹنس اور خسرہ کی ویکسین فراہم کی جائے تو وہ بچوں میں بیماری سے متاثر ہونے کی غیر مستحکم سطح کو کم کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ عالمی ادارہ صحت نے تجویز کیا کہ متعلقہ ویکسین مناسب وقت پر مہیا کی جانی چاہیے تاکہ بیماریوں کی وجہ سے اموات سے بچا جاسکے۔
پولیو وائرس کیا ہے؟
پولیو ایک انتہائی موذی مرض ہے جس کے نتیجے میں متاثرہ فرد کو ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوتی ہے یا مستقل ذہنی معذوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ اکثر 5 سال سے کم عمر کے بچوں کو متاثر کرتا ہے۔
وائلڈ پولیو وائرس کے 3 اسٹرینس ہیں، جن میں ٹائپ ون، ٹائپ ٹو اور ٹائپ تھری شامل ہیں، وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ ٹو کا آخری کیس 1999 میں رپورٹ ہوا تھا اور وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ تھری کا نومبر 2012 میں سامنے آیا تھا جس کے بعد یہ دوبارہ کہیں رپورٹ نہیں ہوا جبکہ ٹائپ تھری وائلڈ پولیو وائرس اب بھی دنیا کے کچھ ممالک میں سامنے آتا رہتا ہے۔
پولیو وائرس متاثرہ فرد کے فضلے سے پھیلتا ہے اور اس سے بچاؤ کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ بروقت ویکسینیشن ہے، جو ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق شیڈول کے تحت یا حکومت کے محکمہ صحت کے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق فراہم کی جاتی ہے۔
پولیو ویکسین کی اقسام
امریکی محکمہ صحت کے ادارے سی ڈی سی کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ پولیو وائرس سے بچاؤ کے لیے بچوں کو پولیو کی ویکسین فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے امریکا اور دیگر کچھ ممالک میں پولیو کی آئی پی وی (ان ایکٹیویٹڈ پولیو ویکسین) انجیکشن کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے جبکہ دیکر ممالک میں اورل پولیو ویکسین (او پی وی) قطروں کی صورت میں فراہم کی جاتی ہے۔
ڈاکٹرز اور صحت کے ماہرین دونوں قسم کی ویکسین کو مؤثر تصور کرتے ہیں۔
سی ڈی سی کے مطابق ہر بچے کو کم سے کم 4 مرتبہ پولیو ویکسین فراہم کی جانی چاہیے اور انہیں 2 ماہ، 4 ماہ، 6 ماہ اور 18 ماہ پر ویکسین فراہم کی جانی چاہیے جبکہ 4 سے 6 سال کی عمر میں فوسٹر ڈوز بھی دی جانی چاہیے۔
پولیو ٹیم کی جانب سے کسی بھی بچے کو پولیو کے قطرے نہ دیے جانے یا پولیو سے متعلق مزید معلومات کے لیے 1166 پر کال کریں۔