• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے خلاف صحافیوں کا احتجاج، پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا

شائع September 12, 2021
----فوٹو: ڈان نیوز
----فوٹو: ڈان نیوز
پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے--فوٹو:جاوید حسین
پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے--فوٹو:جاوید حسین

صحافیوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سخت قوانین پر مشتمل پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کو مسترد کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے دیا۔

اسلام آباد میں ملک بھر سے صحافی تنظیموں کے عہدیداروں اور کارکنوں نے میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے خلاف احتجاج کیا اور پارلیمنٹ کے سامنے پہنچ کر دھرنا دے دیا ہے۔

مزید پڑھیں: صحافت کی آزادی آپشن نہیں بلکہ عوام کا آئینی حق ہے، سابق وزیراعظم

صحافیوں کے احتجاج اور دھرنے میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی اور خطاب کیا، اس کے علاوہ وکلا، برطرف سرکاری ملازمین، انسانی حقوق کے کارکن اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی دھرنے میں شریک ہیں۔

میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام اور آزادی اظہار رائے کے خلاف حکومتی پالیسیوں پر صحافیوں، برطرف سرکاری ملازمین، وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اسلام آباد پریس کلب سے پارلیمنٹ ہاؤس تک ریلی نکالی۔

مظاہرے کے شرکا نے حکومت کی پالیسیوں کو مزدور دشمن قرار دیتے ہوئے حکومت مخالف نعرے بازی کی۔

احتجاج میں شامل مظاہرین سے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے خطاب کیا اور حکومت کی یک طرفہ پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔

علاوہ ازیں مظاہرے کے شرکا نے متنازع قوانین واپس لینے تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

خیال رہے کہ صحافی تنظیموں کے رہنماؤں نے پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کے خطاب کے دوران بھی احتجاج کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

یاد رہے کہ حکومت نے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نام سے نیا قانون متعارف کرنے کا اعلان کیا تھا، جس میں میڈیا اداروں اور صحافیوں کے حوالے سے سخت قوانین تجویز کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نئی مجوزہ میڈیا اتھارٹی کے تحت چینلز پر 25 کروڑ روپے تک جرمانہ ہوسکے گا، فواد چوہدری

گزشتہ ماہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ مجوزہ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے تحت ٹی وی چینلز پر 25 کروڑ روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکے گا جہاں اس سے قبل موجودہ قوانین کے تحت چینلز پر 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوتا ہے۔

ڈیجیٹل براڈ کاسٹرز کے ساتھ ایک نشست میں وفاقی وزیر نے نشاندہی کی تھی کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ایک امیر ادارہ تھا لیکن بدقسمتی سے اس نے اپنے قیام سے اب تک صحافیوں کی تربیت، تحقیق اور ڈیجیٹل میڈیا پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس وقت پاکستان میں میڈیا کو کنٹرول کرنے والے سات قوانین موجود ہیں، سوشل میڈیا کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، پریس کا انتظام پریس کونسل کے پاس ہے، الیکٹرانک میڈیا کو پیمرا دیکھتا ہے، لیبر ریگولیشنز پر عمل درآمد کو ٹریبیونل برائے اخبارات ملازمین (آئی ٹی این ای) دیکھتا ہے جبکہ آڈٹ بیورو آف سرکولیشن(اے بی سی) اخبار کی رجسٹریشن کے امور پر نظر رکھتا ہے۔

وفاقی وزیر نے واضح طور پر کہا تھا کہ تمام قوانین کو ختم کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی جگہ ایک اتھارٹی یعنی پی ایم ڈی اے لے سکے۔

فواد چوہدری نے مزید کہا تھا کہ مجوزہ قانون میں مجرمانہ ذمہ داری کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن اس کے تحت 25 کروڑ روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔

دوسری جانب میڈیا انڈسٹری کی تمام نمائندہ تنظیموں اور ایسوسی ایشنز نے مجوزہ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کو مسترد کرتے ہوئے اس کو کالا قانون قرار دے دیا تھا۔

آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس)، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای)، پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (اے ای ایم ای این ڈی) نے اس حوالے سے مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔

مزید پڑھیں: میڈیا انڈسٹری کی نمائندہ تنظیموں نے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو مسترد کردیا

مشترکہ بیان میں قانون پر تنقید کی گئی تھی اور ایک سے زیادہ مرکزی ادارے کی تشکیل کے ذریعے میڈیا کے تمام حصوں پر ریاستی کنٹرول نافذ کرنے کی طرف اٹھایا جانے والا قدم قرار دیا گیا تھا اور کہا تھا کہ بظاہر پی ایم ڈی اے کا مقصد آزادی اظہار اور پریس کو دبانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون ایک پلیٹ فارم سے میڈیا پر وفاقی حکومت کا کنٹرول سخت کرنے کی کوشش ہے لیکن اس میں اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا الگ الگ حصے ہیں اور ان کی اپنی الگ خصوصیات ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ایک ادارے کے ذریعے تمام اقسام کے میڈیا اداروں کو ریاستی کنٹرول میں لانے کا اقدام آمرانہ سوچ کی نشاندہی کرتا ہے جس کی جمہوری طور پر منتخب حکومت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

میڈیا انڈسٹری کی نمائندہ تنظیموں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے اراکین پر زور دیا تھا کہ وہ مجودہ ادارے کو مکمل طور پر مسترد کردیں۔

حکومت کی تجویز کے مطابق پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی ملک میں پرنٹ، براڈکاسٹ اور ڈیجیٹل میڈیا ریگولیشن کی مکمل طور پر ذمہ دار ہوگی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024