جوڈیشل کونسل 9 ستمبر کو جسٹس عائشہ کی سپریم کورٹ میں ترقی پر غور کرے گی
اسلام آباد: قیام پاکستان سے لے کر اب تک 41 ججوں کو ان کی متعلقہ ہائی کورٹس کے سینئر ترین ججز کو نظر انداز کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ترقی دی گئی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ 1947 سے 1995 کے دوران 21 ججز کا تقرر کیا گیا جبکہ دیگر 20 کو گزشتہ ڈھائی دہائیوں کے دوران ترقی دی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عائشہ کے سپریم کورٹ میں تقرر پر رضامند
انہوں نے وضاحت کی کہ 21 جونیئر ججوں کو 1947 اور 1995 کے درمیان عدالت عظمیٰ میں جگہ ملی جبکہ 7 جونیئر ججز کو بالترتیب 1996 سے 2001 اور 2002 سے 2010 تک ترقی دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح گزشتہ ایک دہائی کے دوران 6 جونیئر ججز سپریم کورٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔
حالیہ مہینوں میں سنیارٹی کا معاملہ ایک مرتبہ پھر منظر عام پر آیا ہے جب مختلف ہائی کورٹس کے ججز کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) نے ترقی دینے پر غور کیا۔
28 جولائی کو جسٹس محمد علی مظہر کو سندھ ہائی کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں 5ویں پوزیشن سے سپریم کورٹ میں ترقی دی گئی تھی اور ان دنوں سپریم کورٹ کے مختلف بنچوں کو پسند کیا جارہا ہے۔
اس سے قبل چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال خان مندوخیل سپریم کورٹ کے جج بنے تھے۔
اب جے سی پی کا کمیشن 9 ستمبر کو جسٹس عائشہ اے ملک کے سپریم کورٹ میں ہونے والے تقرر پر غور کرے گا جبکہ وہ لاہور ہائیکورٹ (ایل ایچ سی) میں سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج تقرر کیلئے جسٹس احمد کی رضامندی نہیں لی گئی‘
چیف جسٹس محمد امیر بھٹی پہلے ہی جے سی پی کو اپنی رضامندی دے چکے ہیں کہ انہیں جسٹس عائشہ اے ملک کی ترقی پر کوئی اعتراض ظاہر نہیں ہے۔
اگر جسٹس عائشہ اے ملک سپریم کورٹ کی جج مقرر ہوتی ہیں تو وہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کی پہلی خاتون جج ہوں گی جو اعلیٰ عدلیہ تک پہنچیں گی اور یہاں تک کہ انہیں ایک مناسب موقع ملے گا مستقبل میں چیف جسٹس آف پاکستان (جے سی پی) بننے کا۔
کمیشن کے تمام اراکین نے اپریل میں اپنے ایک اجلاس کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان سے اتفاق کیا کہ خواتین ججز کی نامزدگی کرنے کی ضرورت ہے۔
بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مئی میں منعقد جے سی پی کے اسی طرح کے ایک اجلاس میں اس رائے کا اظہار کیا کہ کمیشن کو عدلیہ میں خواتین ججوں کی موجودگی کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جبکہ جے سی پی کے دیگر ارکان نے ان کی رائے کی حمایت کی۔
مزیدپڑھیں: عدالت عظمیٰ میں جج کے تقرر کا معاملہ: بار کونسلز آج یوم سیاہ منائیں گی
جے سی پی کے جولائی سیشن میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اے جی پی نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ اعلیٰ عدلیہ میں خواتین ججوں کی ترقی کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
ان سیشنز سے متعلق ذرائع نے مزید وضاحت کی کہ آئین کے آرٹیکل 193 (1) میں درج ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا چیف جسٹس متعلقہ عدالتوں کا سب سے سینئر جج ہونا چاہیے لیکن سپریم کورٹ کے جج کے تقرر میں ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔
جس کے بعد ایک جونیئر جج کو بھی اعلیٰ عدالت میں ترقی دی جا سکتی ہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ 7 مئی کو پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے سینئر اراکین میں سے ایک اور جو اب سینیٹر ہیں، اعظم نذیر تارڑ نے دلیل دی تھی کہ سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے صرف سنیارٹی ہی کافی نہیں ہے، اس ضمن میں قابلیت پر سمجھوتہ نہ کیا جائے کیونکہ سپریم کورٹ اپیل کی آخری عدالت ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اس طرح کا تقرر پروموشن پر مبنی نہیں ہونا چاہیے، اس سے متعلق فیصلوں کو آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت استعمال کرنا چاہیے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ سنیارٹی کی بنیاد پر نااہل ججوں کے تقرر کے لیے ’ڈمپنگ کورٹ‘ نہیں ہے اور پی بی سی نے پہلے ہی سفارش کی تھی کہ صرف قابل ججوں کو ہی سپریم کورٹ میں مقرر کیا جائے۔