مسلم لیگ (ن) کی آرڈیننس کے صدارتی اختیار پر ہائیکورٹ سے فیصلہ دینے کی درخواست
اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) پر زور دیا ہے کہ تسلسل کے ساتھ آرڈیننس نافذ کرنے کے صدارتی اختیار پر فیصلہ دیا جائے کیوں کہ یہ معاملہ سیاسی طور پر پارلیمان میں حل نہیں ہوسکا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تسلسل کے ساتھ آرڈیننس کے اجرا کے خلاف درخواست مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز محسن نواز رانجھا نے دائر کی تھی۔
جس پر یکم جولائی کو سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے معاملہ اسپیکر قومی اسمبلی کو بھجوایا تھا، کیوں کہ اسپیکر نے قانون سازی سے متعلق تحفظات دور کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی۔
چیف جسٹس نے ہدایت دی تھی کہ یہ معاملہ پہلے کمیٹی کے سامنے رکھنا چاہیے۔
بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی نے ہفتہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک متفرق درخواست دائر کی جس میں انہوں نے عدالت کو بتایا کہ یہ معاملہ اسمبلی میں 'التوا' کا شکار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہائیکورٹ رجسٹرار نے شہباز شریف کی توہین عدالت کی درخواست اعتراض لگا کر واپس کردی
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اب تک درخواست گزار کو 'اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے معاملے پر سوال سے متعلق کوئی جواب موصول نہیں ہوا'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'آخری سماعت کو دو ماہ گزر جانے کے باوجود بھی اس معاملے پر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی'۔
درخواست میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق آرڈیننس پر حکم امتناع جاری جاری کرنے پر اصرار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 'ای وی ایم مشینوں کی خریداری اور تھرڈ پارٹی حقوق تخلیق کرنے میں عوامی پیسے کا ضیاع ہوگا'۔
درخواست کے مطابق اس درخواست میں زیر غور سوال آئین کے آرٹیکل 89 کے دائرہ کار سے متعلق ہے جس کے لیے آئینی تشریح درکار ہے اور عدلیہ اس معاملے پر فیصلہ دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاونین خصوصی کی دوہری شہریت کے خلاف درخواست مسترد کردی
درخواست میں عدالت سے میرٹ کی بنیاد پر معاملے کا فیصلہ دینے کی استدعا کی گئی ہے جو پارلیمانی کمیٹی حل نہیں کرسکی۔
واضح رہے کہ 28 جولائی کو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس کے خلاف کچھ نامور دانشوروں کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وزیر اعظم نے حکومت، پارلیمانی جمہوریت کے ذریعے چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور بار بار صدارتی آرڈیننس کا سہارا لینے کا سلسلہ ختم ہونے والا ہے۔