کووڈ سے دماغ کو ہونے والے نقصانات کا انکشاف
کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 یادداشت کی کمزوری اور دماغی تنزلی کا باعث بن سکتی ہے اور ممکنہ طور پر الزائمر امراض کی جانب سفر تیز ہوسکتا ہے۔
یہ بات چند ابتدائی تحقیقی رپورٹس میں سامنے آئی جن کے نتائج الزائمر ایسوسی ایشن کی بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کیے گئے۔
ان نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس سے دماغی افعال پر دیرپا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں بالخصوص بزرگ افراد میں۔
تاہم الزائمر ایسوسی ایشن کی نائب صدر ہیتھر ایم سنائیڈر کا کہنا تھا کہ اگرچہ تحقیقی نتائج دماغ پر کووڈ کے اثرات کو سمجھنے کی جانب پیشرفت ہے، مگر اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ کووڈ سے متاثر ہوتے ہیں تو ضروری نہیں کہ ڈیمینشیا یا الزائمر کا خطرہ بڑھ جائے، ہم ابھی بھی کووڈ اور دماغی امراض کے درمیان تعلق کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایک تحقیق کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تھی جس میں 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 400 سے زیادہ ارجنٹائنی افراد کو شامل کیا گیا تھا جو کووڈ سے متاثر ہوئے تھے۔
تحقیقی ٹیم نے ان افراد کا معائنہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے 3 سے 6 ماہ بعد کیا تھا اور دماغی صلاحیتوں، جذباتی ردعمل اور دیگر کی جانچ پڑتال کی۔
محققین نے دریافت کیا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا ہوا، 60 فیصد کے دماغی افعال پر منفی اثرات مرتب ہوئے جبکہ ہر 3 میں سے ایک میں علامات کی شدت سنگین تھی۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ کی شدت سے دماغی مسائل کی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی، بلکہ مرض سے ہی ان مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، چاہے آپ جتنے زیادہ یا کم بیمار ہوں۔
محققین کے مطابق اگر بیماری کی شدت معمولی ہی کیوں نہ ہو، تاہم کووڈ کے شکار ہیں اور معمر ہیں تو ان مسائل کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
اسی طرح سونگھنے کی حس سے محرومی بھی دماغی افعال کے مسائل سے جڑی ہوتی ہے، سونگھے کی حس سے محرومی کی شدت جتنی زیادہ ہوگی، دماغی افعال اتنے ہی زیادہ متاثر ہوں گے۔
محققین کا کہنا تھا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ کورونا وائرس سے ہونے والی دماغی تبدیلیاں مستقل ہوتی ہیں یا ان کو ریورس کیا جاسکتا ہے۔
دوسری تحقیق یونان کی ٹھیسلے یونیورسٹی کی تھی جس میں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 2 ماہ بعد کووڈ کے مریضوں کے دماغی افعال میں مسائل کا تجزیہ کیا گیا۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی اوسط عمر 61 سال تھی اور ان میں بیماری کی شدت معملی سے معتدل تھی۔
تحقیق میں یہ بھی جائزہ لیا گیا کہ دماغی تنزلی کس حد تک جسمانی فٹنس اور نظام تنفس کے افعال سے منسلک تھی۔
محققین نے دریافت کیا کہ مریضوں کو ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 2 ماہ بعد دماغی تنزلی کا سامنا کررہے تھے جبکہ ان میں نظام تنفس کے افعال زیادہ خراب ہوچکے تھے۔
علامات جیسے ہی تھیں ان میں سے کچھ مریضوں کو دماغی صحت کے ڈاکٹروں سے مدد لینے پر غور کرنا پڑا۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ طبی نگہداشت فراہم کرنے والوں کو دماغی تنزلی کو لانگ کووڈ کا حصہ سمجھنا چاہئے۔
تیسری تحقیق میں کووڈ کے مریضوں کے خون میں الزائمر کا خطرہ بڑھانے والے حیاتیاتی اشاروں کا تجزیہ کیا گیا تھا۔
اس مقصد کے لیے نیویارک یونیورسٹی لانگون ہیتھ میں زیرعلاج رہنے والے 310 مریضوں کے پلازما نمونوں کو اکٹھا کیا گیا تھا۔
محققین نے دریافت کیا کہ الزائمر سے منسلک حیاتیاتی اشارے توقع سے زیادہ تھے اور یہ حیاتیاتی تبدیلیاں اس سے ملتی جلتی تھیں جو الزائمر اور دیگر دماغی امراض سے منسلک کی جاتی ہیںن۔
تحقیق میں شامل افراد کی اوسط عمر 69 سال تھی اور محققین کا کہنا تھا کہ ہم یہ سمجھ نہیں سکے کہ لوگوں میں یہ حیاتیاتی تبدیی کیوں آتی ہے، ہم ابھی نہیں جانتے کہ اس کا تسلسل برقرار رہتا ہے یا نہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ کے مریضوں میں الزائمر کی علامات اور اس مرض کی جانب سفر کی رفتار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
یہ سب تحقیقی رپورٹس ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئیں اور طبی ماہرین نے ان کی جانچ پڑتال نہیں کی۔
تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفصیلات انتہائی اہم ہیں اور اس وبا سے ہمیں وائرل انفیکشن کے اثرات کو جاننے کا موقع ملا ہے، بالخصوص کورونا وائرس سے دماغ پر مرتب ہونے والے اثرات کا۔
ماہرین نے زور دیا کہ اگر انہوں نے اب تک ویکسینیشن نہیں کرائی تو جلد از جلد کرالیں، ہمارا بہترین مشورہ یہ ہے کہ کووڈ سے بچیں۔