• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

پارلیمانی کمیٹی نے جسمانی سزا کی ممانعت کا بل منظور کرلیا

شائع July 29, 2021
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے تاہم اس بل میں کچھ ترامیم کی ہیں - فوٹو:مصطفیٰ الیاس
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے تاہم اس بل میں کچھ ترامیم کی ہیں - فوٹو:مصطفیٰ الیاس

اسلام آباد: ایک پارلیمانی کمیٹی نے جسمانی سزا کی ممانعت بل 2021 کی منظوری دے دی جس میں نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ کام کرنے کی جگہ پر بھی بچوں کے ساتھ جارحانہ سلوک پر پابندی عائد ہوگی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاہم سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اس بل میں کچھ ترامیم کی ہیں۔

اس بل کے تحت کسی بھی فرد کی جانب سے بچوں کو جسمانی سزا، ملازمت کی جگہ پر، تعلیمی اداروں میں اور مذہبی سرکاری اور نجی بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں اور بحالی مراکز کے ساتھ ساتھ بچوں کے عدالتی نظام میں بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

مذہب کی روشنی میں اپنی رائے کے لیے قائمہ کمیٹی کی جانب سے مدعو کیے گئے دونوں مہمانوں کے علاوہ کمیٹی کے دیگر اراکین نے اس بل کی منظوری دی۔

مزید پڑھیں: بچوں کو جسمانی سزا دینے کی ممانعت کا بل قومی اسمبلی میں منظور

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پروفیسر ساجد میر، جنہیں اس معاملے پر مذہبی تناظر کی روشنی میں بات کرنے کی دعوت دی گئی تھی، نے حدیث سے یہ مثال پیش کی کہ نظم و ضبط کو یقینی بنانے کے لیے اساتذہ کو آگے نہیں کرنا چاہیے۔

پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ جسمانی سزا کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جانا چاہیے لیکن انہوں نے یہ بھی دعوٰی کیا کہ پیش کردہ بل میں تجویز کردہ سزائیں جرائم کے ساتھ موافق نہیں ہیں۔

اسی طرح جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بھی استدلال کیا کہ کچھ سختی ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جے یو آئی (پ) سزا کی بجائے اصلاحات پر یقین رکھتی ہے، ہم محسوس کرتے ہیں کہ جسمانی سزا پر پابندی لگانے سے معاشرے میں اخلاقی بدحالی ہوگی اور اس میں زیادتی کی گنجائش بھی ہوگی'۔

انہوں نے ایک میکنزم تجویز کیا کہ تنظیم کے سربراہ، والدین اور ملزمان پر مشتمل کمیٹی حقائق کا پتہ لگانے کے لیے دو روز میں فیصلہ کرے۔

جے یو آئی (پ) کے رہنما نے اس جرم کی سنگینی پر تنخواہوں میں اضافے اور ترقیوں، جرمانے، لازمی ریٹائرمنٹ اور برخاستگی کی بھی تجویز پیش کی۔

تاہم بل پیش کرنے والی سینیٹر سعدیہ عباسی نے دعویٰ کیا کہ دنیا بھر کے فزیشنز، ماہرین نفسیات اور ماہرین تعلیم نے بچوں کی ذہنی اور علمی نشوونما پر جسمانی سزا کے منفی اثرات کی نشاندہی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان گنت تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ جسمانی سزا اور ماحول بچوں کی شخصیات میں جارحیت سمیت متعدد نفسیاتی سماجی عدم توازن پیدا کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شہزاد رائے نے جسمانی تشدد پر پابندی کے بِل کو بچوں کیلئے بہترین تحفہ قرار دے دیا

انہوں نے کہا کہ ماہرین کا اتفاق ہے کہ جسمانی سزا سے بچے کی صحت پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں خاص طور پر ان کے برتاؤ اور دماغی صحت پر۔

انہوں نے کہا کہ 'اسکولوں میں ڈراپ آؤٹ کی شرح اور طلبہ کی کم سیکھنے کے نتائج کی کی ایک وجہ اساتذہ کی جانب سے جسمانی سزا بھی ہے'۔

اقوام متحدہ کی کنوینشن برائے حقوق اطفال 1989، جس کی پاکستان نے توثیق کی تھی، کے مطابق اب ریاست کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو ہر طرح کے جسمانی اور ذہنی تشدد سے بچائے۔

انہوں نے زور دیا کہ 'لہذا جسمانی سزا پر پابندی عائد کی جانی چاہیے اور اسے ایک ایکٹ کے ذریعے جرم قرار دیا جانا چاہیے'۔

تاہم کمیٹی نے تعریفوں میں ترمیم کی اور سزاؤں کو کم کیا۔

اس مسودے پر اب مزید غور کے لیے ایوان میں تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024