سپریم جوڈیشل کونسل نے چیئرمین نیب کو ہٹانے سے متعلق قانونی وضاحت طلب کرلی
اسلام آباد: سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے حکومت کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کو ہٹانے سے متعلق کارروائی میں قانونی سقم کا حل پیش کرنے تک 2019 کے ایک ریفرنس پر مزید غور ملتوی کردیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے ایڈووکیٹ چوہدری محمد سعید ظفر کی جانب سے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کے خلاف دائر ریفرنس کی سماعت کی۔
چیئرمین نیب کے عہدے کی مدت 8 اکتوبر کو اختتام پذیر ہو رہی ہے۔
مذکورہ ریفرنس چیئرمین نیب کی نیب انکوائری کا سامنا کرنے والی ملزمہ طیبہ گل سے مبینہ خفیہ ملاقات کی لیک ویڈیو کے تناظر میں بھیجا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: احتساب عدالت نے طیبہ گل، ان کے شوہر کو بلیک میلنگ سے متعلق ریفرنس میں بری کردیا
یاد رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے اتفاق رائے کے ساتھ اکتوبر 2017 میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کو انسداد بدعنوانی ادارے کا چیئرمین تعینات کیا تھا۔
چنانچہ ریفرنس کی سماعت میں شکایت کنندہ خود سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش ہوئے تاکہ اپنا مؤقف پیش کر سکیں۔
تاہم سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ اٹارنی جنرل فار پاکستان خالد جاوید خان کو وفاقی حکومت سے چیئرمین نیب کو ہٹانے کے حوالے سے وضاحت اور ہدایات لینی چاہیے، کیوں کہ نیب آرڈیننس کی دفعہ 6 چیئرمین نیب کو ہٹانے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل جیسے فورمز کے اختیارات کے حوالے سے خاموش نظر آتا ہے۔
جس کے بعد ریفرنس پر مزید کارروائی ملتوی کردی گئی۔
یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں اس وقت سامنے آیا جب 2001 کے اسفند یار ولی خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا کہ نیب چیئرمین کو چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سے صدر مملکت مقرر کریں گے۔
مزید پڑھیں: چیئرمین نیب کی متنازع ویڈیو کے معاملے پر اپوزیشن تقسیم
تاہم فیصلے میں اس بات پر غور نہیں کیا گیا کہ چیئرمین نیب کو ہٹایا کس طرح جائے گا اور خیال کیا گیا کہ چونکہ صدر، چیئرمین نیب کو تعینات کریں گے اس لیے انہیں ہٹانے کا اختیار بھی صدر کے ہی پاس ہے۔
دوسری جانب قومی احتساب آرڈیننس کی دفعہ 6، جو کہ چیئرمین نیب کی تعیناتی سے متعلق ہے، میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور وزیر اعظم کی مشاورت سے بیورو کے چیئرمین کو ناقابل توسیع 4 سالہ مدت کے لیے تعینات کریں گے۔
مذکورہ آرڈیننس میں چیئرمین نیب کی برطرفی کی بنیاد سپریم کورٹ کے جج کی برطرفی کی بنیاد کو بنایا گیا ہے۔
آئین پاکستان کی دفعہ 209 میں عدالت عظمیٰ کے جج کی برطرفی کی شرائط یہ بتائی گئی ہیں کہ عدالت کا کوئی جج جسمانی، دماغی معذوری کی وجہ سے اپنے فرائض انجام دینے سے قاصر ہو یا بدعنوانی کا مرتکب ہوا ہو۔
یہ بھی پڑھیں: نیب چیئرمین سے منسلک آڈیو جعلی اور جھوٹ پر مبنی ہے، ترجمان
ادھر ریفرنس میں شکایت گزار ایڈووکیٹ سعید ظفر نے الزام عائد کیا کہ ایک نجی کمرے میں کسی ملزم سے ذاتی ملاقات اور مبینہ طور پر قابل اعتراض حرکت کرنا بہت غیر اخلاقی عمل ہے اور چیئرمین نیب کا یہ فعل غلط کام کے زمرے میں آتا ہے۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ نیب انکوائری کے دوران ملزمہ طیبہ گل کی چیئرمین نیب سے ملاقات اور اس کے بعد فون پر ہونے والی گفتگو اتنے معزز عہدے کی جانب سے سنگین مس کنڈکٹ کا مظہر ہے۔
شکایت گزار نے سپریم جوڈیشل کونسل سے درخواست کی تھی کہ چیئرمین نیب کے خلاف اس سنگین مس کنڈکٹ سے متعلق انکوائری شروع کی جائے اور حقیقت جاننے کے لیے ویڈیو کی فرانزک جانچ کا حکم دیا جائے۔
ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ چیئرمین نیب کی جانب سے ویڈیو کی تردید ناکافی ہے اور اس سے پورے احتساب کے عمل پر سوالات اٹھتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے اس ریفرنس کی دوبارہ سماعت ستمبر میں کسی وقت کیے جانے کا امکان ہے۔