• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

کیا تناؤ حاملہ خواتین کے بچے کی جنس پر اثرانداز ہوتا ہے؟

شائع June 17, 2021
— شٹر اسٹاک فوٹو
— شٹر اسٹاک فوٹو

شادی کے بعد اولاد کی پیدائش کسی بھی جوڑے کی زندگی کا سب سے خوشگوار تجربہ ثابت ہوتی ہے۔

بچے کی پیدائش کے حوالے سے متعدد چیزوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے مگر حالیہ برسوں میں محققین نے دریافت کیا ہے کہ ایک عنصر حمل کے مراحل پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتا ہے۔

اور وہ ہے خواتین میں تناؤ کی شدت۔

حاملہ خواتین میں تناؤ بچوں کی جنس پر اثرات مرتب کرسکتا ہے

ایسی خواتین جن کو حمل کے دوران تناؤ کا تجربہ ہوتا ہے، ان میں سے محض ایک تہائی کے ہاں لڑکوں کی پیدائش ہوتی ہے۔

آسان الفاظ میں تناؤ کے نتیجے میں لڑکے کی جگہ لڑکی کی پیدائش کا امکان بڑھتا ہے۔

روزمرہ کی زندگی کا دباؤ ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی جنس پر اثرات مرتب کرسکتا ہے، جو پتھر پر لکیر تو نہیں مگر کافی حد تک ایسا ہوتا ہے۔

ماہرین کے مشاہدے کے مطابق جن خواتین کو کسی بھی قسم کے تناؤ کا سامنا ہوتا ہے ان کے ہاں لڑکیوں کے پیدائش کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسے جنس پر اثرانداز ہونے والا 100 فیصد عنصر تو تصور نہیں کیا جاسکتا مگر ممکنہ وجوہات میں سے ایک ہوسکتی ہے۔

ذہنی تناؤ زیادہ شدید ااثرات مرتب کرتا ہے

جسمانی اور جذباتی تناؤ سے بھی لڑکے کی پیدائش کا امکان ہوتا ہے کیونکہ لڑکے ماں کے ارگرد کے ماحول سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

مگر ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ عموماً 56 فیصد لڑکوں کی پیدائش صحت مند خواتین کے ہاں ہوتی ہے، 40 فیصد تناؤ کے شکار کے ہاں 40 فیصد جبکہ جسمانی تناؤ کی شکار خواتین کے ہاں یہ شرح 31 فیصد ہے۔

2019 کی کولمبیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ماں کا رحم بچے کا پہلا گھر ہوتا ہے اور ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ لڑکے وہاں زیادہ کمزور ہوتے ہیں۔

ویسے قدرتی طور پر اوسطاً ہر سو بچیوں کے ساتھ 105 لڑکوں کی پیدائش ہوتی ہے مگر اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایسی حاملہ خواتین جو ہائی بلڈ پریشر اور دیگر جسمانی تناﺅ کی علامات کی شکار ہوتی ہیں، ان میں یہ شرح ہر 9 لڑکیوں پر 4 لڑکے ہوتی ہے۔

اسی طرح ذہنی تناﺅ کا سامنا کرنے والی خواتین میں یہ شرح ہر 3 لڑکیوں پر 2 لڑکوں کی ہوتی ہے۔

تحقیق کے مطابق جسمانی دباﺅ کا شکار خواتین میں بچے کی پیدائش قبل از وقت ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر ذہنی تناﺅ کو دیگر پیچیدگیوں جیسے لیبر میں زیادہ وقت وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے۔

2021 میں اسپین کی گرناڈا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا کہ حاملہ ہونے سے قبل اور حمل ٹھہرنے کے دوران ذہنی تناؤ کا سامنا کرنے والی خواتین کے ہاں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی پیدائش کا امکان دوگنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ جن ماؤں کو حمل ٹھہرنے سے قبل زیادہ تناؤ کا سامنا ہوتا ہے ان میں لڑکیوں کی پیدائش کا امکان لڑکوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔

سماجی تعاون بہت مددگار

محققین کا کہنا تھا کہ حاملہ خواتین کو سماجی طور پر تعاون ملے یعنی کوئی ان سے بات کرے یا ان کے مسائل کو حل کرنے میں مدد کرے تو قبل از وقت پیدائش کا خطرہ ختم ہوجاتا ہے۔

مگر زیادہ حیران کن دریافت یہ تھی کہ ماں کو جتنا لوگوں کا تعاون ملے گا، لڑکے کی پیدائش کا امکان بھی اتنا زیادہ ہوگا۔

مجموعی طور پر سماجی تعاون کے 3 پہلو خواتین میں تناؤ کی شدت میں کمی لانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

ایسے لوگ جن سے بات کی جاسکے، ایسے افراد جن کے ساتھ وقت گزارا جاسکے اور ایسے افراد جن کی مدد پر انحصار کیا جاسکے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024