ایک فضائی میزبان کی آپ بیتی: عملہ اور اضطراری ہلچل
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ 'خاور بھائی آپ کو ڈر نہیں لگتا؟' دل تو کرتا ہے کہ وسیم بھائی (وسیم اکرم) کی طرح ان کو جواب دے دیا کروں کہ 'نہیں میں سیگریٹ نہیں پیتا'، لیکن ایک مرتبہ ڈر لگا تھا۔ ایسا ڈر کہ کلمہ تک پڑھ لیا اور سب کو معاف بھی کردیا تھا۔
کراچی سے لاہور آتے ہوئے ملتان اور بہاولپور کے اوپر مٹی کے طوفان نے آن لیا۔ اس طوفانی ہوا نے 2 لاکھ 51 ہزار 290 کلو وزنی جہاز کو کسی جھاڑ کی طرح اچھال کر رکھ دیا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ہوا نے کسی چھوٹے بچے کے ہاتھ کی شکل اختیار کرلی ہے جو جہاز کو دُم سے پکڑ کر جس رُخ دل کرتا ہے، موڑ دیتا ہے۔
جہاز کے اندر اللّٰہ اکبر، کلمہ شہادت، یا خُدا رحم اور گڑگڑانے تک کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ میں جہاں بیٹھا ہوا تھا وہاں آس پاس کوئی نہیں تھا۔ اکیلا بیٹھا سوچ رہا تھا کہ زمین تک پہنچ بھی پاﺅں گا یا فضا میں ہی کہانی تمام ہے میری۔ بس کیا بتاﺅں، جیسا کہانیوں میں پڑھا اور فلموں میں دیکھا کہ موت سامنے ہو تو ساری زندگی کے واقعات ایک لمحے میں آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگتے ہیں، ایسی کوئی ڈرامے بازی تو نہیں ہوئی میرے ساتھ البتہ اس وقت میں نے یہ ضرور سوچا کہ میرا بھائی ٹھیک کہتا ہے کہ جہاز کے عملے کو ایک ایک پیراشوٹ ضرور ملنا چاہیے۔
اتنا دیوقامت اور وزنی جہاز اس طوفان میں دائیں بائیں ایسے ہچکولے کھا رہا تھا جیسے میلے ٹھیلوں میں بحری قزاقوں کی کشتی نُما جھولا۔ لیکن اس قدر مشکل حالات میں اللّٰہ نے کرم کیا۔ کس طرح کی صورتحال پیش آنے والی ہے؟ اور اس میں سے اپنے آپ اور دوسرے مسافروں کو نکالنا کیسے ہے؟ اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ کپتان کی آواز سنائی دی کہ ہم طوفان سے نکل آئے ہیں اور جلد لاہور اتر جائیں گے۔ خدا کی قسم میں بادشاہ ہوتا تو خوشی کے شادیانے بجواتا، خزانوں کے منہ کھول دیتا، لنگرِ عام 40 روز تک جاری کرواتا کہ شہر میں کوئی بھوکا نہ رہے۔ خیر، قصہ مختصر، یوں ہمارا جہاز اس صورتحال سے کوئی 150 بندوں کا تراہ نکال کے نکلا۔
اکثر خراب موسم سے بچنے کے لیے ایئر کنٹرول ٹاور سے پرواز کو دوسرا راستہ دے دیا جاتا ہے۔ یعنی طوفان کو بائے پاس کروا دیا جاتا ہے لیکن بعض اوقات صورتحال ایسی ہوتی ہے کہ
یہ پرواز نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
طوفان بادو باراں میں ڈوب کے جانا ہے
جس طرح میں نے اس شعر کو بے وزن کیا ہے بالکل اسی طرح خراب موسم بھی جہاز کو ایسا جھنجھوڑتا ہے جیسے وہ بھی کسی بے سرے شاعر کا بے وزن شعر ہو۔
لیکن اگر موسم بالکل ٹھیک ہو، دھوپ نکلی ہوئی ہو، بادلوں کا دُور دُور تک نشان بھی کوئی نہ ہو اور دورانِ پرواز آپ کو ایک 'اضطراری ہلچل' کے باعث شدید قسم کا جھٹکا لگے اور آپ کے اوسان خطا ہوجائیں، بلکہ اگر آپ بیت الخلا کے باہر کسی شدید ضرورت کے تحت کھڑے ہیں اور یہ اچانک افتاد آپ سے کچھ اور 'خطا' کروا جائے تو یقین کریں اس میں عملے، جہاز اڑانے والے کپتان، ان کے ماں باپ، آباؤ اجداد اور ان کی نسل کے بقیہ افراد کا کوئی قصور نہیں۔
اس اچانک افتاد کو انگریزی زبان میں 'کلیئر ایئر ٹربیولینس' کہا جاتا ہے۔ دورانِ پرواز ٹربیولینس ہونا عام بات ہے۔ کپتان کو اس بارے میں معلوم ہوتا ہے اور وہ مسافروں کو اس بارے معلومات بھی دیتا ہے۔ مگر یہ 'کلئیر ایئر ٹربیولینس' وہ قسم ہے جو کسی ریڈار میں نہیں آتی۔ بس اچانک آتی ہے۔ ایسا ہنگامہ خیز 'جیٹ اسٹریم' کے ارد گرد چھوٹے پیمانے پر (یعنی سیکڑوں میٹر اور اس سے کم) ہوا کی رفتار کے تدریج کی وجہ سے ہوسکتا ہے، جہاں تیزی سے چلتی ہوا زیادہ آہستہ چلتی ہوا کے قریب ہوتی ہے۔ یہ پہاڑی علاقوں میں سب سے زیادہ شدید اور گرج چمک کے گرد و نواح میں بھی ہوتی ہے۔
لہٰذا مسافروں سے اس لیے متعدد بار گزارش کی جاتی ہے کہ جہاز کو ویگن یا بس کی طرح عام سواری نہ سمجھا جائے اور نشست پر بیٹھے ہوئے بھی حفاظتی بند باندھے رکھا جائے۔ اب خود سوچیں آپ کتنے بُرے لگیں گے ساتھ والے مسافر سے باتیں کرتے کرتے ایک دم چھت سے جا لگیں اور واپس نیچے آکر کہیں، 'ہاں جی! اے میں اتے جان توں پیلاں کی گل کر ریا سی‘۔ (ہاں جی! یہ میں اوپر جانے سے پہلے کیا بات کر رہا تھا)
ایسے ہی ایک دن پرواز کے دوران ہم سروس میں مصروف تھے۔ ایک جانب میں اور دوسری جانب میرا ساتھی سلمان سروس ٹرالی پر تھا۔ ہم لوگ واپس اپنے اسٹیشن کی طرف آ رہے تھے۔ سلمان نے ٹرالیوں کو مقررہ جگہ پر لگا کر پیپسی کی بوتل اٹھائی اور کیبن کی طرف منہ کیا ہی تھا کہ ایک دم جہاز کو جھٹکا لگا، لوگوں کی بریانیاں زمیں بوس ہوگئیں۔ مرنڈا، پیپسی، سیون اپ اور پیلے گلابی جوس جہاز کے قالین پر قوس قزاح کے رنگ بکھیر گئے۔ بیت الخلا میں موجود مسافروں کے ناپاکی سے بچنے کے تمام حربے ناکام ہوگئے۔ جنہوں نے حفاظتی بند باندھے ہوئے تھے، وہ اپنے ساتھ اپنا کھانا بچانے میں کامیاب ہوئے۔ اور جو حفاظتی بند باندھ کر نہیں بیٹھے تھے وہ، خیر، سمجھ تو آپ گئے ہوں گے۔
میں اس وقت اپنی جمپ سیٹ پر بیٹھا ٹرالی سیٹ کر رہا تھا اور ایک ہاتھ سے ٹرالی کو پکڑ رکھا تھا۔ میری بچت ہوگئی لیکن سلمان نینو سیکنڈ کے اندر جہاز کی چھت کا جائزہ لے کر واپس نیچے آچکا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے کہ یہ کیا ہوا اور شکر ہے کہ جان بچ گئی۔
مگر سلمان کے خون کے اندر دوڑتے ہوئے جرثومہ ہائے مراثیات نے انگڑائی لی اور آنکھیں پھاڑ کر کہنے لگا، 'تُو نے دیکھا کیسی ٹربیولینس تھی؟' میں نے کہا ہاں یار۔ پھر پیپسی کی بوتل کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا، 'تو بس یہ چیک کر تیرے بھائی نے ایک قطرہ بھی پیپسی نیچے نہیں گرنے دی'، اور داد طلب نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے اس بہادری پر اس کو تمغہ حسنِ کارکردگی دلوانے کا وعدہ جن الفاظ میں کیا وہ یہاں بیان کرنے کے لائق نہیں۔
خیر ہم نے ساری سروس ایک سائیڈ پر رکھی اور مسافروں کی مدد اور کھانے کے نقصان کا تخمینہ لگانے کے لیے کیبن کا رُخ کیا۔
تبصرے (3) بند ہیں