حمل ٹھہرنے سے قبل ماں میں تناؤ کی شدت بچے کی جنس کے حوالے سے اہم
حاملہ ہونے سے قبل اور حمل ٹھہرنے کے دوران ذہنی تناؤ کا سامنا کرنے والی خواتین کے ہاں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی پیدائش کا امکان دوگنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
یہ دعویٰ اسپین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔
گرناڈا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 108 خواتین کو شامل کیا گیا تھا۔
ان خواتین کی مانیٹرنگ حمل کے آغاز سے بچوں کی پیدائش تک کی گئی اور حمل ٹھہرنے سے قبل، دوران اور بعد میں تناؤ کی سطح کا جائزہ بالوں اور متعدد نفسیاتی ٹیسٹوں کے ذریعے کیا گیا۔
حمل سے قبل تناؤ کی سطح کا جائزہ لینے کا مقصد یہ تعین کرنا تھا کہ اس کا بچے کی جنس سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔
ان حاملہ خواتین میں تناؤ سے منسلک ہارمون کی شرح کا جائزہ حمل کے 8 سے 10 ویں ہفتے کے دوان بالوں کے نمونے کے لیے لیا گیا۔
ان نمونوں میں بالوں میں گزشتہ 3 ماہ کے دوران کورٹیسول کی شرح کا تعین (ایک ماہ میں بالوں کی سینٹی میٹر نشوونما کے ذریعے) کیا گیا، جس سے حمل ٹھہرنے سے قبل، دوران اور بعد کے عرصے میں تناؤ کی شدت کا عندیہ ملا۔
محققین نے بتایا کہ نتائج حیران کن تھے کیونکہ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جن خواتین کے ہاں بچیوں کی پیدائش ہوئی، ان کے بالوں میں کورٹیسول کی شرح حمل ٹھہرنے، دوران اور بعد میں زیادہ تھی۔
درحقیقت نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ جن ماؤں کو حمل ٹھہرنے سے قبل زیادہ تناؤ کا سامنا ہوتا ہے ان میں لڑکیوں کی پیدائش کا امکان لڑکوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف ڈویلپمنٹل اوریجن آف ہیلتھ اینڈ ڈیزیز میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل 2019 میں امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ دوران حمل اگر خواتین کو جسمانی یا ذہنی طور پر شدید تناﺅ کا سامنا ہو تو ان کے ہاں بیٹے کی جگہ بیٹی کی پیدائش کا امکان بڑھ جاتا ہے جبکہ قبل از وقت پیدائش کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ماں کا رحم بچے کا پہلا گھر ہوتا ہے اور ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ لڑکے وہاں زیادہ کمزور ہوتے ہیں۔
ویسے قدرتی طور پر اوسطاً ہر سو بچیوں کے ساتھ 105 لڑکوں کی پیدائش ہوتی ہے مگر اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایسی حاملہ خواتین جو ہائی بلڈ پریشر اور دیگر جسمانی تناﺅ کی علامات کی شکار ہوتی ہیں، ان میں یہ شرح ہر 9 لڑکیوں پر 4 لڑکے ہوتی ہے۔
اسی طرح ذہنی تناﺅ کا سامنا کرنے والی خواتین میں یہ شرح ہر 3 لڑکیوں پر 2 لڑکوں کی ہے۔
خیال رہے کہ اس نئی تحقیق کے نتائج لڑکے یا لڑکی کی پیدائش کی شرح میں تعلق تو بیان کرتے ہیں مگر یہ پتھر پر لکیر نہیں۔