• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

نیب کی ضمانت منسوخی کی درخواست، مریم نواز کی جرمانے کے ساتھ خارج کرنے کی استدعا

شائع April 6, 2021
مریم نواز کی جانب سے عدالت میں جمع کرایا گیا جواب 6 صفحات پر مشتمل ہے — فائل فوٹو: عدنان شیخ
مریم نواز کی جانب سے عدالت میں جمع کرایا گیا جواب 6 صفحات پر مشتمل ہے — فائل فوٹو: عدنان شیخ

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے چوہدری شوگر مل کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی ضمانت منسوخی کی درخواست پر جواب لاہور ہائیکورٹ میں جمع کرا دیا۔

مریم نواز کی جانب سے عدالت میں جمع کرایا گیا جواب 6 صفحات پر مشتمل ہے۔

مزید پڑھیں: ضمانت منسوخی کی درخواست: عدالت نے مریم نواز سے تحریری جواب طلب کرلیا

اپنے جواب میں نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے نیب کی درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کرنے کی استدعا کی ہے۔

مریم نواز نے مؤقف اختیار کیا کہ نیب نے چوہدری شوگر مل کیس میں 14 ماہ خاموشی اختیار کی پھر طلب کیا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ نیب کے کیسز اور گرفتاریاں دراصل اپوزیشن کی آواز دبانے کی کوشش ہے۔

مریم نواز نے تحریری جواب میں کہا کہ نیب سیاسی انجینئرنگ کا کردار ادا کر رہا ہے اور نیب کی درخواست سے بظاہر لگتا ہے چیئرمین نیب حکومت کے ترجمان ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کی ضمانت منسوخی کیلئے نیب کا عدالت سے رجوع، درخواست سماعت کیلئے مقرر

مریم نواز نے اپنے جواب میں نیب کی ضمانت منسوخی کی درخواست کی مخالفت کی۔

انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر مل میں ضمانت منظور کی۔

نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ نیب کا کام کرپشن روکنا ہے سیاسی بیانات پر کارروائی کرنا نہیں جبکہ حکومتی ایما اور سیاسی بنیادوں پر نیب کارروائی کر رہا ہے۔

مریم نواز کی ضمانت منسوخی کی درخواست پر سماعت کل ہو گی۔

مزید پڑھیں: مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر کارکنان اور پولیس میں تصادم

خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے نیب کی جانب سے چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست پر ان سے 7 اپریل تک تحریری جواب طلب کیا تھا۔

ضمانت منسوخی کی درخواست

13 مارچ کو نیب نے پراسکیوٹر جنرل پنجاب کی وساطت سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں مریم نواز اور وزارت داخلہ کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ مریم نواز چوہدری شوگر ملز منی لارنڈرنگ الزامات میں ضمانت پر رہا ہوئیں اور تب سے مسلسل ریاستی اداروں پر حملے کر رہی ہیں۔

درخواست میں مریم نواز کی چوہدری شوگر ملز منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت منسوخ کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

اس میں کہا گیا کہ مریم نواز الیکڑونک اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ریاستی اداروں کے خلاف متنازع بیان دے رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم

علاوہ ازیں مریم نواز کو چوہدری شوگر ملز میں دستاویزات طلبی کے لیے 10 جنوری 2020 کو نوٹس بھجوائے گئے لیکن انہوں نے نوٹسز پر کوئی توجہ نہیں دی اور نہ مطلوبہ ریکارڈ فراہم کیا۔

درخواست میں نیب نے مؤقف اختیار کیا کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کی جانب سے دستاویزات فراہم نہ کرنے پر 11 اگست 2020 کو انہیں ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا تھا۔

چیئرمین نیب نے درخواست میں کہا کہ اگست 2020 میں مریم نواز نے سیاسی طاقت کا استعمال کیا اور نیب آفس پر حملہ کروایا جس کا مقدمہ علیحدہ سے درج کیا جاچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مریم نواز پیش نہ ہو کر نیب کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں اور عوام میں یہ تاثر دے رہی ہیں کہ ریاستی ادارے غیر فعال ہو چکے ہیں۔

چوہدری شوگر ملز کیس

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کے دوران جنوری 2018 میں مالی امور کی نگرانی کرنے والے شعبے نے منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت چوہدری شوگر ملز کی بھاری مشتبہ ٹرانزیکشنز کے حوالے سے نیب کو آگاہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس عدالت میں پیش

بعدازاں اکتوبر 2018 میں نیب کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف اور ان کے بھائی عباس شریف کے اہلِ خانہ، ان کے علاوہ امریکا اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ غیر ملکی اس کمپنی میں شراکت دار ہیں۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ چوہدری شوگر ملز میں سال 2001 سے 2017 کے درمیان غیر ملکیوں کے نام پر اربوں روپے کی بھاری سرمایہ کاری کی گئی اور انہیں لاکھوں روپے کے حصص دیے گئے۔

اس کے بعد وہی حصص متعدد مرتبہ مریم نواز، حسین نواز اور نواز شریف کو بغیر کسی ادائیگی کے واپس کیے گئے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کمپنی میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے غیر ملکیوں کا نام اس لیے بطور پراکسی استعمال کیا گیا کیوں کہ شریف خاندان کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے استعمال کی جانے والی رقم قانونی نہیں تھی۔

جس پر 31 جولائی کو تفتیش کے لیے نیب کے طلب کرنے پر وہ پیش ہوئیں تھیں اور چوہدری شوگر ملز کی مشتبہ ٹرانزیکشنز کے سلسلے میں 45 منٹ تک نیب ٹیم کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق یوسف عباس اور مریم نواز نے تحقیقات میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکیوں کو پہچاننے اور رقم کے ذرائع بتانے سے قاصر رہے اور مریم نواز نوٹس میں بھجوائے گئے سوالوں کے علاوہ کسی سوال کا جواب نہیں دے سکی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز ضمانت پر رہا

جس پر نیب نے مریم نواز کو 8 اگست کو دوبارہ طلب کرتے ہوئے ان سے چوہدری شوگر ملز میں شراکت داری کی تفصیلات، غیر ملکیوں، اماراتی شہری سعید سید بن جبر السویدی، برطانوی شہری شیخ ذکاؤ الدین، سعودی شہری ہانی احمد جمجون اور اماراتی شہری نصیر عبداللہ لوتا سے متعلق مالیاتی امور کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس کے ساتھ مریم نواز سے بیرونِ ملک سے انہیں موصول اور بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر/ٹیلیگرافگ ٹرانسفر کی تفصیلات بھی طلب کی گئی تھیں۔

8 اگست کو ہی قومی احتساب بیورو نے چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو گرفتار کر کے نیب ہیڈکوارٹرز منتقل کر دیا تھا۔

جس کے بعد ان کے جسمانی ریمانڈ میں کئی مرتبہ توسیع کی گئی تھی، جس کے بعد عدالت نے انہیں 4 ستمبر کو مزید 14 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔

18 ستمبر کو انہیں دوبارہ عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں عدالت نے جسمانی ریمانڈ میں 7 روز کی توسیع کی تھی اور 25 ستمبر کو انہیں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور

بعد ازاں جب 25 ستمبر کو مریم نواز کو پیش کیا گیا تھا تو ان کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

مریم نواز کے عدالت ریمانڈ میں بھی کئی مرتبہ توسیع ہوچکی تھی اور آخری مرتبہ جب 25 اکتوبر کو انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تھا تو 8 نومبر تک ان کے عدالتی ریمانڈ میں توسیع کی گئی تھی۔

6 نومبر کو لاہور کی احتساب عدالت سے رہائی کی روبکار جاری ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024