• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

پارلیمانی سیکریٹری انسانی حقوق کا یونیورسٹی کے طلبہ کا داخلہ فوری بحال کرنے کا مطالبہ

شائع March 17, 2021
پارلیمانی سیکریٹری انسانی حقوق نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے گورنر پنجاب اور  وائس چانسلرکو خط لکھا ہے—فائل فوٹو: اسکرین شاٹ
پارلیمانی سیکریٹری انسانی حقوق نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے گورنر پنجاب اور وائس چانسلرکو خط لکھا ہے—فائل فوٹو: اسکرین شاٹ

پارلیمانی سیکریٹری انسانی حقوق لال چند مالہی نے یونیورسٹی آف لاہور (یو او ایل) کے طلبہ کی پرپوز کرنے کی ویڈیو وائرل ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ایم ایچ قاضی کو خط لکھتے ہوئے مذکورہ طلبہ کا داخلہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی نجی جامعہ، یونیورسٹی آف لاہور (یو او ایل)، نے 12 مارچ کو جامعہ کی حدود میں دیگر طلبہ کے سامنے طالب علم اور ساتھی طالبہ کی ایک دوسرے کو پروپوز کرنے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہونے کے بعد دونوں کو یونیورسٹی سے بے دخل کردیا تھا۔

معاملہ کچھ یوں تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیگر طلبہ کی موجودگی میں ایک طالبہ کو فلمی انداز میں لڑکے کو پھول پیش کرتے ہوئے، طالب علم سے محبت کا اظہار کرتے اور پھر دونوں کو گلے ملتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: یونیورسٹی آف لاہور نے 'پروپوز' کرنے کی ویڈیو وائرل ہونے پر طلبہ کو نکال دیا

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس موقع پر موجود دیگر طلبہ کی جانب سے شور بھی کیا گیا جو ویڈیو میں واضح ہے۔

تاہم یہ ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اس ویڈیو پر تبصرے بھی کیے گئے تھے۔

—فائل فوٹو: اسکرین شاٹ
—فائل فوٹو: اسکرین شاٹ

جس کے بعد یونیورسٹی آف لاہور کے رجسٹرار کے دستخط کردہ نوٹس میں طالبہ اور طالب علم کو جامعہ سے نکالتے ہوئے یونیورسٹی میں ان کے داخلے پر پابندی لگادی تھی۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ جامعہ کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر دونوں طلبہ کو اسپیشل ڈسپلنری کمیٹی نے طلب کیا تھا تاہم دونوں کمیٹی کے سامنے پیش ہونے میں ناکامی اور یونیورسٹی کے قوانین اور ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزی پر دونوں کو جامعہ سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔

مزید کہا گیا تھا کہ کیمپس کے جنرل ڈسپلن رولز اور کوڈ آف کنڈکٹ کے سیکشن نمبر 16 کے تحت نکالے گئے طلبہ آئندہ یونیورسٹی یا اس کے کسی بھی کیمپس میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔

یونیورسٹی آف لاہور کے اس سخت فیصلے پر سوشل میڈیا صارفین کی رائے منقسم ہوگئی کچھ نے اس فیصلے کو غلط قرار دیا تو کچھ نے اس وائرل ویڈیو میں موجود طلبہ کی مخالفت کی۔

اب وزارت انسانی حقوق نے مذکورہ معاملے کا نوٹس لیا ہے اور پارلیمانی سیکریٹری برائے انسانی حقوق لال چند مالہی دونوں طلبہ کو جامعہ میں دوبارہ داخلہ دلوانے کے لیے متحرک ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: طلبہ کو نکالنے کا معاملہ: یونیورسٹی انتظامیہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے، فواد چوہدری

پارلیمانی سیکریٹری برائے انسانی حقوق نے اس ضمن میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور دیگر کو بھیجے گئے خط میں کہا کہ یونیورسٹی میں پڑھنے والے دو طلبہ کا پروپوز کرنا کسی صورت ناجائز فعل نہیں۔

پارلیمانی سیکریٹری انسانی حقوق نے خط میں کہا کہ جوڑے کو فارغ کرنے سے پہلے دونوں طلبہ کا مؤقف لینا ضروری تھا۔

یونیورسٹی کے اس شدید ردعمل کی وجہ سے دونوں طلبہ کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے، انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے بجائے یونیورسٹی میں مشاورتی سینٹرز کھولنے چاہئیں۔

پارلیمانی سیکریٹری انسانی حقوق نے کہا کہ ایک دوسرے کو پروپوز کرنے کی پاداش میں طلبہ جوڑے کو یونیورسٹی سے فارغ کرنا ان کے حقوق کی پامالی ہے۔

لال چند مالہی نے کہا کہ ایک دوسرے کو پروپوز کرنے کا حق آئینِ پاکستان اور اقوام متحدہ کے معاہدوں کے مطابق ہے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ یونیورسٹی آف لاہور کا یہ اقدام پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر اچھا پیغام نہیں۔

لال چند مالہی نے کہا کہ اخلاقی اقدار کو درگزر نہیں کیا جا سکتا مگر اتنا سخت ایکشن لینے کے اثرات اچھے نہیں ہوں گے۔

مزید پڑھیں: فاسٹ یونیورسٹی کے طلبہ کو فیس بک پر ٹیچرز کا مذاق اڑانا مہنگا پڑگیا

پارلیمانی سیکریٹری انسانی حقوق نے کہا کہ طلبہ کو یونیورسٹی سے نکالنے کا فیصلہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔

لال چند مالہی نے خط میں مطالبہ کیا کہ طلبہ کا داخلہ فوری طور پر بحال کیا جائے۔

خیال رہے کہ پارلیمانی سیکریٹری انسانی حقوق سے قبل وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گِل نے بھی طلبہ کو یونیورسٹی سے نکالے جانے کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔

علاوہ ازیں مختلف سیاسی و شوبز شخصیات کی جانب سے بھی دونوں طلبہ کو یونیورسٹی سے بے دخل کرنے کے فیصلے کی مذمت کی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024