روسی اپوزیشن لیڈر کو قید، فیصلے کےخلاف احتجاج پر 1500 مظاہرین گرفتار
روسی پولیس نے صدر ولادی میر پیوٹن کے ناقد اور اپوزیشن لیڈر الیکسی ناوالنی کو عدالت کی جانب سے دی گئی قید کی سزا کے فیصلے پر احتجاج کرنے والے ہزاروں افراد کی احتجاجی ریلی پر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے 1500 مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔
غیر ملکی خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سول مانیٹرنگ گروپ نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر مذمت کے باوجود الیکسی ناوالنی کو 3 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
مزیدپڑھیں: پیوٹن کے ناقد و اپوزیشن لیڈر الیکسی ناوالنی روس پہنچتے ہی گرفتار
عدالتی فیصلے میں 44 سالہ اپوزیشن لیڈر کی 2014 کی سزا معطل کرکے جیل کی سزا سنادی گئی۔
برطانیہ، فرانس، جرمنی، امریکا اور یورپی یونین نے روسی عدالت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے الیکسی ناوالنی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب ماسکو نے مغربی ممالک پر اپنے داخلی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا ہے۔
سول نگرانی گروپ او وی ڈی انفو نے بتایا کہ روس کے مختلف شہروں میں ایک ہزار 408 افراد کو حراست میں لیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر مظاہرین کو ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ میں گرفتار کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: روسی اپوزیشن رہنما الیکسی ناوالنی کو زہر دے دیا گیا
روسی عدالت کے جج نتالیا ریپنوکوفا نے 2014 میں دھوکا دہی کے الزامات کے تحت ملنے ہونے والی ساڑھے تین سال قید کی سزا کا حکم جاری کردیا۔
ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے جیل کے عہدیداروں سے ملاقات سے انکار کیا اور پیرول کی شرائط کی خلاف ورزی کی۔
روسی رہنما نے مؤقف اختیار کیا کہ بیرون ملک رہتے ہوئے جیل کے عہدیداروں سے ملاقات کرنا ناممکن تھا لیکن جج نے ریمارکس دیے کہ انہیں زہر دیے جانے سے قبل رابطہ رکھنا چاہیے تھا۔
اس فیصلے سے قبل اپوزیشن رہنما نے روسی صدر پر الزام لگایا تھا کہ وہ اپنے ناقدین کو دھمکانے کی کوشش کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’وہ لاکھوں افراد کو ڈرانے کے لیے ایک شخص کو سلاخوں کے پیچھے ڈال رہے ہیں‘۔
مذکورہ پیش رفت پر امریکی سیکریٹری اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے روسی رہنما کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کو ’شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے پر جواب دینا ہوگا‘۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بھی روسی رہنما کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
مزیدپڑھیں: روسی حکومت نے اپوزیشن لیڈر کے زہر دینے کے الزام کو مذاق قرار دے دیا
علاوہ ازیں جرمن چانسلر نے روسی عدالت کے فیصلے کو ’قانون کی بالادستی سے بہت دور‘ اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اسے ’خالصاً بزدلی‘ قرار دیا ہے۔ ۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بورریل نے کہا کہ فیصلہ ’قانون کی حکمرانی اور بنیادی آزادیوں سے متعلق روس کے بین الاقوامی وعدوں کے منافی ہے‘۔
جس کے جواب میں روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے مغربی مملک کے رد عمل کو ’حقیقت سے دور‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’کسی خودمختار ریاست کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے‘۔
خیال رہے کہ روسی صدر پیوٹن کے سب سے بڑے ناقد الیکسی ناوالنی کو گزشتہ برس اگست میں جہاز میں گرنے کے بعد کومے کی حالت میں طبی امداد کے لیے جرمنی منتقل کردیا گیا تھا۔
جرمنی میں ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ روسی اپوزیشن لیڈر کو نوویچوک کے طرز پر زہر دے کر جان سے مارنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ماسکو جانے والے طیارے میں سوار ہو کر انہوں نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ 'یہ گزشتہ پانچ ماہ بہترین لمحات تھے'۔