• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:41pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:41pm

غلطیاں کہاں ہوئیں؟

شائع August 10, 2013

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

قیاس یہ تھا کہ ملالہ کو اسکی سالگرہ کی مبارک باد دی جائیگی اوراقوام متحدہ کی یوتھ اسمبلی میں اسکی تقریرسامعین میں جوش و جذبہ پیدا کریگی- مختلف پارٹیوں کے نمائندوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع کیا جائیگا جہاں وہ ازسرنو عہد کرینگے کہ پاکستانی بچوں خصوصا لڑکیوں کے درمیان تعلیم کو فروغ دیا جائیگا-

اس مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ساؤتھ ایشین ویمن ان میڈیا نے ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن کی معاونت سے کراچی پریس کلب میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا-

افسوس اس بات کا ہے کہ سیمینار اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا- بجائے اس کے کہ یہاں تعلیم کو درپیش مسائل پر غورو فکر کیا جاتا یہ فورم سیاست کی نذر ہو گیا-

میں سمجھ رہی تھی کہ شائد پارٹیوں کے نمائندے یہ بتائینگے کہ ملک میں تعلیم کو فروغ دینے کیلئے ان کی حکمت عملی کیا ہو گی؟ اس کے برعکس یہاں تعلیم کے فوائد کے بارے میں جوشیلی تقریریں کی گئیں جیسے کہ ہم اس سے لاعلم ہیں- کیا ہمارے قائدین اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں یہ بتایا جائے کہ تعلیم کے کیا فائدے ہیں؟

چونکہ اس سیمینار کا اہتمام ملالہ کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے کیا گیا تھا کیونکہ اس نے طالبان کا مقابلہ جرآت سے کیا تھا- اس لئے اس موقع پرطالبان پرسخت تنقید بھی ہوئی- ایک مقررنے تو ظرافت سے یہ بھی کہا کہ انہیں ظالمان کہنا چاہئے- ان کا کہنا درست تھا- ایک اور مقرر نے کہا کہ ہماری سوچ پر طالبان کا اثر ہو گیا ہے چنانچہ تعلیم کو خطرہ لاحق ہے- یہ بات بھی درست ہے-

لیکن اس بات نے کسی کو چونکایا نہیں کیونکہ پاکستانی سماج کے لبرل عناصر کو طالبان کے خیال سے وحشت ہوتی ہے- طالبان نے بلاشبہ پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا ہے- چنانچہ ان کا مقابلہ قومی سلامتی کے تناظر میں کیا جانا چاہئے-

ان تیزوتند تقاریرکا نتیجہ یہ ہوا کہ توجہ تعلیم کے مسئلہ سے ہٹ گئی- جو تاثر پیدا ہوا وہ یہ تھا کہ طالبان کے منظر پر نمودار ہونے سے پہلے تعلیم کے شعبے میں سب کچھ ٹھیک تھا- جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر تعلیم کے شعبے کی سمت درست ہوتی تو طالبان کو کبھی بھی اس طرح پیر پھیلانے کا موقع نہ ملتا-

ہم میں سے وہ لوگ جو طالبان کے نمودار ہونے سے پہلے موجود تھے اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب سے پاکستان کا قیام مسلمانوں کے وطن کے طور پر عمل میں آیا، تعلیم کے ساتھ برا سلوک کیا گیا- میکالے کی روایت کے ورثے پر چلتے ہوئے ہم ایک عام انسان کیلئے اپنی تعلیم کی بنیاد کو تیزی سے ترقی دینے میں ناکام ہو گئے- جب کہ اشرافیہ کے اسکول کی کھل کر حمایت کی گئی- اس دوران تعلیم کے نظام کو دھکا لگا- حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو کی 1972 کی اسکولوں اور کالجوں کو قومیانے کی پالیسی، تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی حالانکہ ان کی نیت ٹھیک تھی-

اس کے بعد سے یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے- ضیاء الحق نے اس کو نام نہاد اسلامی سمت دی- جسکا ذکر ایک مقرر نے سیمینارمیں کیا- نوے کی دہائی میں بھی تعلیمی زوال کا یہ سلسلہ جاری رہا اوراسی دہائی میں معیشت کے شعبے میں نیولبرل نظریات کے نتیجے میں تجارتی رجحانات کوفروغ ملا- چنانچہ تعلیم نے معاشرے کو دوحصّوں میں تقسیم کر دیا- اس دوران ایک نیا عنصر یہ نمودار ہوا ہے کہ طالبان ننھی منی ملالاؤں کو اسکول جانے پر گولی کا نشانہ بنا رہے ہیں- شکر اس بات کا ہے کہ ملالہ جیسی لڑکیوں کو ان کے ارادے سے کوئی باز نہیں رکھ سکتا-

تشویشناک بات یہ ہے کہ طالبان کا عنصر ایک ایسی دھند ثابت ہو رہا ہے جس کے پیچھے وہ خرابیاں چھپ گئیں جس کے نتیجے میں تعلیمی نظام شکست وریخت سے دوچار ہے- جس بات کو ہم تسلیم نہیں کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ خرابیاں طالبان سے پہلے بھی موجود تھیں-

مثال کے طور پر اسکولوں کی بدحالی کو لے لیجئے- مقامی طور پر طالبان کے نمودار ہونے سے پہلے بھی پاکستان کے محکمہ تعلیم کے افسران، گھوسٹ اسکولوں کو پال رہے تھے اور یوں اسکولوں کو آہستہ آہستہ غیر محسوس طور پر تباہ کر دیا گیا جس کے نتائج اور بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوئے-

اسکولوں کی عمارتوں کو بیٹھکوں اورمویشیوں کے باڑوں میں تبدیل کر دیا گیا اوراساتذہ کو زمینداروں نے اپنا ذاتی ملازم بنا لیا چنانچہ بچوں کو ان کے اسکولوں سے واپس کیا جانے لگا- حالیہ میسر اعدادو شمار کے مطابق ایک وقت میں پاکستان میں گھوسٹ اسکولوں کی تعداد بارہ ہزار تھی- طالبان نے پانچ سو اسکول دھماکوں سے اڑا دیے اور احمقانہ طور پر لڑکیوں کو اپنے خلاف عمل کرنے پر اکسایا- وہ ہمارے محکمہ تعلیم کے افسروں سے ابھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں-

ضیاء کے دور حکومت سے پہلے، جب مذہبی رجحانات خطرناک طور پرتبدیل ہورہے تھے، پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کی اسکولوں کوقومیانے کی پالیسی نے اس کی بنیاد فراہم کر دی تھی- ٹیچروں کی اسامیوں کو پارٹی کے کارکنوں سے پُر کیا گیا تھا جن کی اہلیت کی واحد بنیاد پارٹی کے ساتھ ان کی وفاداری تھی نہ کہ تعلیم میں ان کی دلچسپی- حکومت کے خزانے کا پیسہ ان کی تنخواہوں پر ضائع کیا جانے لگا-

سندھ کے وزیر تعلیم نثار کھوڑو جو سیمینار میں موجود تھے ان الزام تراشیوں کی تردید کرنے لگے اور کہا کہ ان کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ سارا کیا دھرا فوجی آمروں کا ہے- انہوں نے سوال کیا کہ ان لوگوں پر تنقید کیوں نہیں کی جاتی؟ انھوں نے سول سوسائٹی اور والدین پر بھی تنقید کی کہ یہ لوگ اپنے بچوں کی تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے-

وزیر موصوف کیلئے مناسب نہ تھا کہ وہ والدین پر تنقید کرتے کیونکہ ان کی اکثریت خود تعلیم یافتہ نہیں ہے- ان کی تو تعریف ہونی چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کواسکول بھیج رہے ہیں جبکہ خود انہوں نے اسکولوں کی شکل نہیں دیکھی-

سول سوسائٹی، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر میڈیا کو کسی حد تک یہ ذمہ داری قبول کرنی چاہئے کہ غیر مراعات یافتہ طبقے کیلئے تعلیم کا مسئلہ کبھی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا- لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت وقت کو اس ذمہ داری سے مبّرا قرار دیا جائے جس کا وعدہ وہ اپنے انتخابی منشوروں میں کرتے ہیں اور عوام سے ٹیکس جمع کرتے ہیں- کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر سول سوسائٹی اس پر دباؤ نہ ڈالے تو وہ اقدامات نہیں کریگی؟

پیپلز پارٹی کو پورے پانچ سال ملے تھے جس کے دوران وہ اقدامات کر سکتی تھی-

افسوس اس بات پر ہے کہ سیمینار میں نہ تو کوئی واضح حکمت عملی پیش کی گئی اور نہ ہی اس حد درجے بدبودار اصطبل کو پاک صاف کرنے کا کوئی عہد کیا گیا- کیا ہم یہاں اسی لئے جمع ہوئے تھے؟


ترجمہ: سیدہ صالحہ

زبیدہ مصطفی

www.zubeidamustafa.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025