• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

مولانا شیرانی کا جے یو آئی (پاکستان) کو جے یو آئی (ف) سے الگ کرنے کا اعلان

شائع December 29, 2020
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اکابرین سے سیاست وراثت میں ملی ہے — فوٹو: ڈان نیوز
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اکابرین سے سیاست وراثت میں ملی ہے — فوٹو: ڈان نیوز

اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے جمعیت علمائے اسلام (پاکستان) کو جمعیت علمائے اسلام (ف) سے الگ کرنے کا اعلان کردیا۔

اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ناراض رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں مولانا محمد خان شیرانی نے کہا اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ صداقت اور دیانت سے خالی ہے۔

مزید پڑھیں: جے یو آئی (ف) نے مولانا شیرانی، حافظ حسین احمد کو پارٹی سے نکال دیا

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اکابرین سے سیاست وراثت میں ملی ہے۔

مولانا شیرانی نے کہا کہ فضل الرحمٰن نے جے یو آئی (ف) کے نام سے اپنا گروپ تشکیل دیا جبکہ ہم کبھی بھی جے یو آئی (ف) یا فضل الرحمٰن گروپ کا حصہ نہیں رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ہمیشہ جمعیت علمائے اسلام کے دستور کے مطابق رکن رہے اور رہیں گے۔

مولانا شیرانی نے کہا کہ ہم تمام ساتھیوں کو ترغیب دلائیں گے کہ وہ جماعت کے ساتھ، جماعتی اداروں کے ساتھ، جماعتی اراکن کے ساتھ رابطے نہ توڑیں اور ضد اور حسد نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری دعوت میں تین باتیں ہوں گی کہ سچ بولو، جھوٹ قطعاً نہ بولو، حق کو چھپانے کے لیے اسے باطل کے ساتھ ضم نہ کرو۔

مولانا شیرانی نے کہا کہ جو ساتھی دولت اور عزت کی بھوک سے اجتناب کرتے ہیں اور اپنے سیاسی عمل اور رہنمائی کے بدلے میں کوئی اجرت کے خواہاں نہیں ہوں گے تو ایسے ساتھیوں کے لیے باہم رابطے مضبوط بنانے کے لیے مشاورت ہوتی رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں: بغاوت سے متاثرہ جے یو آئی (ف) کا ایک نیا دھڑا بننے کا امکان

انہوں نے کہا کہ موجودہ نظم جو مولانا فضل الرحمٰن گروپ کا ہے، اگر وہ اپنے پروگرامز میں کسی بھی سطح پر ہمیں دعوت دے تو ہم ضرور شریک ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو ساتھی ہمارے لیے پروگرام بناتے ہیں ہم ان سے کہیں گے کہ فلاں نظم والوں کو بھی دعوت دو۔

مولانا شیرانی نے کہا کہ اگر وہ ہمیں دعوت نہیں دیتے تب بھی ہم شرائط کے ساتھ شریک ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس انتشار کو وحدت میں تبدیل کرنے کے لیے چند تجاویز ہیں۔

مولانا شیرانی نے کہا کہ سب سے پہلی تجویز یہ ہے کہ مرکزی مجلس عمومی سے ایک قرارداد منظور کی جائے کہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان فضل الرحمٰن اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن، ان دونوں کے نوٹی فکیشن کو منسوخ کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک نیا نوٹی فکیشن جمعیت علمائے اسلام پاکستان جاری کیا جائے جس طرح ہمارے منشور میں موجود ہے اور الیکشن کمیشن کو پیش کیا جائے۔

واضح رہے کہ 21 دسمبر کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینئر رہنما اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن سے اختلاف سے متعلق واضح جواب دیے بغیر کہا تھا کہ 'ہماری قسمت ایسی ہے کہ علما اور قومی زعما جب ان پر صاف ستھرا جھوٹ ثابت ہوجائے نہ وہ شرماتے ہیں نہ ان کے چہرے پر نہ آنکھوں میں کوئی تغیر آتا ہے، بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ یہ تو حکمت عملی ہے اور جب وعدہ خلافی ان پر ثابت ہوجائے تو کھل کھلا کر کہتے ہیں کہ یہ تو سیاست ہے، رات گئی بات گئی'۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا شیرانی توہین کے قوانین پر نظرثانی کو تیار

ان کا کہنا تھا کہ جب دھوکا ثابت ہوجائے تو پھر بڑے آرام سے تکیہ لگا کر کہتے ہیں کہ یہ تو مصلحت ہے، جب خود غرضی ثابت ہوجائے تو کہتے ہیں کہ یہ تو دانائی ہے۔

مولانا محمد خان شیرانی نے کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے میرے ساتھ تو دھوکا نہیں کیا۔

دوسری جانب پارٹی کے ایک اور سینیئر رہنما حافظ حسین احمد نے نجی چینل 'اے آر وائی' کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن جس اسمبلی کو جعلی کہتے تھے وہاں سے صدارتی الیکشن لڑا اور ان کے بیٹے بھی وہیں موجود ہیں۔

بعد ازاں 25 دسمبر کو جمعیت علمائے اسلام (ف) نے پارٹی فیصلوں سے انحراف کرنے پر مولانا محمد خان شیرانی اور حافظ حسین احمد سمیت 4 رہنماؤں کی پارٹی رکنیت ختم کردی تھی۔

پارٹی کے مرکزی ترجمان محمد اسلم غوری نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولانا محمد خان شیرانی، حافظ حسین احمد، مولانا گل نصیب خان اور مولانا شجاع الملک کو پارٹی سے خارج کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ مرکزی مجلس شوریٰ کی انضباطی کمیٹی نے مولانا عبدالقیوم ہالیجوی کی صدارت میں یہ متفقہ فیصلہ کیا، جبکہ قائمقام امیر مولانا محمد یوسف کی صدارت میں مرکزی مجلس عاملہ اور صوبائی امرا و نظما نے اجلاس میں فیصلے کی توثیق کردی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024