پاکستان سے دبئی شاہین برآمدگی کیس: سیکریٹری خارجہ، چیئرمین ایف بی آر کو نوٹس
اسلام آباد ہائیکورٹ نے 150 شاہینوں کی پاکستان سے دبئی برآمد کے لیے اجازت دینے کے خلاف درخواست پر سیکریٹری خارجہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین کو نوٹسز جاری کردیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے مبینہ طور پر دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کو سال 20-2019 کے دوران پاکستان سے نایاب نسل کے 150 شاہین دبئی برآمد کرنے کے لیے خصوصی اجازت نامہ جاری کیا تھا۔
مذکورہ معاملے پر اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ (آئی ڈبلیو ایم ڈی) کے سابق چیئرپرسن ڈاکٹر انیس الرحمٰن نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
مزید پڑھیں: دبئی کے حکمران کو نایاب نسل کے 150 شاہین 'برآمد' کرنے کی اجازت
جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سماعت کی، اس دوران درخواست گزار کے وکیل اویس اعوان نے مؤقف اپنایا کہ حکومت کو شاہین برآمد کرنے کے لیے اجازت دینے کا اختیار نہیں تھا۔
وکیل کا کہنا تھا کہ شاہین خطرے سے دوچار نوع قرار دیا گیا ہے جبکہ اجازت دینا پاکستان ٹریڈ کنٹرول آف وائلڈ فونا اینڈ فلورا ایکٹ 2012 کی خلاف ورزی ہے، اس کے علاوہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 21 مئی 2020 کے فیصلے میں قانون پر روشنی ڈالی گئی ہے جس میں عدالت نے بری طرح قید جانوروں کو قدرتی رہائش گاہ پر منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔
انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ شاہین کو جاندار ہونے کے ناطے اس کی قدرتی رہائش گاہ سے محروم نہیں کیا سکتا اور یہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم میں بھی قرار دیا گیا ہے۔
اس موقع پر عدالت نے چیئرمین ایف بی آر، وزارت خارجہ کے سیکریٹری اور متعلقہ وزارت کے ڈپٹی چیف پروٹوکول کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے ایک ہفتے میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی شہزادے کو پاکستان سے 50 شاہین برآمد کرنے کی اجازت
علاوہ ازیں فریقین کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ وہ عدالت میں اپنے مجاز نمائندوں کو نامزد کریں اور مطمئن کریں کہ کس قانون کے تحت خطرناک قرار دیے گئے نوع جیسے ’شاہینوں‘ کو قدرتی رہائش گاہ سے محروم کرنے اور پھر برآمد کرنے کی اجازت دی۔
مزید برآں کیس کی سماعت کو 18 دسمبر تک ملتوی کردیا گیا۔
خیال رہے کہ حیوانیات و نباتات کے خطرے سے دوچار نوع سے متعلق بین الاقوامی تجارت پر موجود کنوینشن سمیت مختلف بین الاقوامی سطح تحفظ کنوینشنز کے تحت شاہینوں کو تحفظ حاصل ہے اور جنگی حیات کے تحفظ کے مقامی قوانین کے تحت اس کی تجارت پر پابندی ہے۔
یہ خبر 16 دسمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی