ریپ کے موضوع پر اب بھی بہت کام کرنے کی گنجائش ہے، ایڈیٹر ڈان
روزنامہ 'ڈان' کے ایڈیٹر ظفر عباس نے کہا ہے کہ بلاشبہ میڈیا کے ریپ کیسز پر رپورٹنگ کے معیار میں مثبت اور تعمیری بہتری دیکھنے میں آئی ہے لیکن اب بھی اس موضوع پر بہت کام کرنے کی گنجائش باقی ہے۔
عکس ریسرچ، ریسورس اینڈ پبلیکشن سینٹر اور ورلڈ ایسوسی ایشن فار کرسچن کمیونیکیشن کے اشتراک سے انسانی حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے 'کیا میڈیا حساس طریقے سے ریپ پر رپورٹنگ کر سکتا ہے؟' کے عنوان سے ویبنار کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر سے نامور صحافیوں، میڈیا ہاؤسز کے نمائندوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنان نے شرکت کی۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے عکس ریسرچ سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تسنیم احمر نے ادارے کی مانیٹرنگ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'یہ دیکھا گیا ہے کہ میڈیا ریپ کیسز کی یکساں کوریج نہیں کرتا، معاشرے میں ہونے والے ریپ کیسز کی تعداد میڈیا کے رپورٹ کردہ ریپ کیسز کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔'
عکس کی جانب سے جاری کردہ میڈیا مانیٹرنگ رپورٹ میں اس چیز کا احاطہ کیا گیا کے اول تو میڈیا عام ریپ کیسز کو پرائم ٹائم کوریج نہیں دیتا جب تک کہ وہ کیس مختلف وجوہ کی بنا پر ہائی پروفائل کیس بن کر حکام بالا اور عوام کی توجہ کا مرکز نہ بن جائے اور اگر وہ ریپ کیس رپورٹ کرتا ہے تو استعمال کی گئی صحافتی زبان پرمغز اور بامعنی نہیں ہوتی۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں ریپ جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے، وزیراعظم
ایڈیٹر ڈان اخبار ظفر عباس نے خواتین کے حوالے سے تشدد کے خلاف میڈیا میں بڑھتی آگاہی میں 'عکس' کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ 'بلاشبہ میڈیا کے ریپ کیسز پر رپورٹنگ کے معیار میں مثبت اور تعمیری بہتری دیکھنے میں آئی ہے لیکن اب بھی اس موضوع پر بہت کام کرنے کی گنجائش باقی ہے۔'
انہوں نے تجویز دی کہ کئی ریپ کیسز وقت کی کمی کی وجہ سے میڈیا کوریج سے محروم رہ جاتے ہیں، اگر ادارہ عکس اپنے طور پر وقوع پذیر ہونے والے تمام ریپ کیسز کے اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ وقتا فوقتا میڈیا نمائندگان کے لیے جاری کرتا رہے تو یہ عمل مزید بہتری کا ضامن ہو سکتا ہے۔
معروف ٹی وی اینکر اور پروگرام 'ذرا ہٹ کے' کے میزبان ضرار کھوڑو نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'بعض اوقات میڈیا وقت اور جگہ کی کمی کی وجہ سے بہت سے ریپ کیسز رپورٹ نہیں کر سکتا، لیکن میڈیا اینکرز اور سوشل فین فالونگ رکھنے والے افراد کو اپنے طور پر اس موضوع پر گفتگو کرتے رہنا چاہیے'۔
ویبنار میں شریک معروف خاتون صحافی اور ٹی وی اینکر عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ریپ کیسز کی رپورٹنگ کے حوالے سے میڈیا کا رویہ مثبت تبدیلی کی جانب گامزن ہے جو کہ ایک خوش آئند امر ہے، ٹی وی اینکرز کو سیاسی موضوعات کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور خاص کر خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر بھی گفتگو کرنی چاہیے۔'
ڈرامہ رائٹر اور تھیٹر سے منسلک بی گل نے اس بات پر زور دیا کے ریپ کا شکار ہونے والی خواتین کو ایسی معاشرتی اور اخلاقی مدد فراہم کی جانے چاہیے کہ وہ بغیر کسی ڈر اور خوف کے ظلم و جبر کے سامنے ڈٹ جائیں۔
مزید پڑھیں: ریپ میں ملوث افراد کو سرعام پھانسی یا نامرد کردینا چاہیے، وزیر اعظم
ہیومن رائٹس کمیشن سے تعلق رکھنے والی زہرہ یوسف نے کہا کہ ریپ جیسا قبیح عمل کرنے والوں کا آن لائن ڈیٹا بنایا جانا چاہیے تاکہ عوام الناس ان کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکیں اور محتاط رہیں۔
ویبنار کے شرکا نے خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد پر عکس کی مثبت کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ میڈیا، ریپ جیسے سنگین جرائم کے حوالے سے رپورٹنگ کے دوران اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا مظاہرہ کرے اور اس معاشرتی مسئلے کو بھی دیگر مسائل کی طرح اجاگر کرے۔