• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت، سپریم کورٹ میں نیب مقدمات کی تفصیل طلب

شائع December 8, 2020
حمزہ شہباز نیب کی حراست میں ہیں—فائل/فوٹو: ڈان
حمزہ شہباز نیب کی حراست میں ہیں—فائل/فوٹو: ڈان

سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت پر احتساب عدالت سے ان سے متعلق قومی احتساب بیورو (نیب) کے تمام مقدمات کی تفصیل طلب کرلی۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے حمزہ شہبازکی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل کورٹ میں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہو اور سپریم کورٹ حکم دے چکی ہے کہ نیب مقدمات کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف، حمزہ شہباز سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد

جسٹس مشیر عالم نے حمزہ شہباز کے وکیل امجد پرویز سے کہا کہ بہتر ہوگا عدالت سے میرٹ پر کوئی آبزرویشن نہ لیں، حمزہ شہباز سے منسوب اکاؤنٹس کا جائزہ لیا تو مشکل ہو جائے گی۔

جسٹس یحیی آفریدی کا کہنا تھا کہ میرٹ پر ضمانت نہ مانگیں، یہ پہاڑ سر کرنے والی بات ہوگی، جس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ حمزہ شہباز کو 11 جون 2019 کو گرفتار کیا گیا، ریفرنس دائر ہونے کے بعد 11 نومبر 2020 کو چارج فریم کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مقدمے کے 110 گواہان میں سے اب تک 3 کے بیان قلم بند کیے گئے، جس پر جسٹس مشیر عالم نے پوچھا کہ آپ کا کیس 23 جعلی اکاونٹس کا ہے، آپ چاہتے ہیں آپ کے موکل کو جواب الجواب کا موقع دیا جائے۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ آپ کے اکاؤنٹ میں پیسہ کہاں سے آیا، اس معاملے کو چھوڑ دیں؟ نیب کو گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے کے لیے کتنا وقت درکار ہے؟ جس پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے عدالت کو بتایا کہ نیب 6 ماہ میں تمام گواہوں کے بیانات ریکارڈ کر لے گا تاہم جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ گواہوں کے بیانات میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے؟

نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ گواہان شریف خاندان کے ملازم ہیں اور ان کو طلب کر کے بیان ریکارڈ کرنا مشکل عمل ہے۔

جسٹس مشیر عالم نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ مقدمے کے دیگر ملزمان کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا، جس پر انہوں نے بتایا کہ مقدمے کے دیگر ملزمان اشتہاری قرار دیے جا چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف کی بیٹی، داماد اور بیٹا اشتہاری قرار

جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ نیب کا یہی تو کام ہے ایک کو گرفتار کر کے دیگر کو کھلا چھوڑ دیتا ہے، اب تک ملزمان کی جائیدادیں ضبط کیوں نہیں کیں جب آپ نے ملزم کو 11 جون 2019 کو گرفتار کیا تھا تو اب تک ان کی جائیدادیں ضبط کیوں نہیں ہو سکیں۔

نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ کسی دن نیب کی تمام فائلیں منگوا کر روزانہ کی کارروائی چیک کریں گے، نیب نے لوگوں کو بند رکھا ہوا ہے، یہ زیادتی ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ نیب کے تمام زیر التوا کیسز کی تفصیل عدالت میں جمع کرائیں، سپریم کورٹ نے نیب کیسز روزانہ کی بنیاد پر سننے کا حکم دے رکھا ہے۔

اس موقع پر حمزہ شہباز کے وکیل اعظم تارڑ نے کہا کہ کیس کے گواہان کو ریلیف دیں وہ 30، 30 ہزار روپے کے تنخواہ دار ملازم ہیں، جس پر جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ جانتے ہیں ان 30 ہزار روپے تنخواہ دار ملازمین کے اکاؤنٹس میں کتنا پیسہ ہے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ سلمان شہباز کی جائیداد ضبط کیوں نہیں کی، سارا ریفرنس خالی پڑا ہے اور مفرور ملزمان کو صرف اشتہاری ہی قرار دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزمان ٹرائل کورٹ جاتے ہی نہیں، ہر دوسرے دن حاضری سے استثنیٰ کی درخواست آجاتی ہے، ٹرائل کورٹ بھی ڈھیلی ہوکر آرام سے بیٹھی ہوئی ہے، نیب کسی کو پکڑ لیتا ہے اور کسی کی جائیداد بھی ضبط نہیں ہوتی۔

وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ حمزہ شہباز کو شہباز شریف کا بے نامی دار بنایا گیا ہے، حمزہ شہباز پر 23 اکاؤنٹ اور 18 کروڑ کا الزام عائد کیا گیا۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ کیا شہباز شریف نے ضمانت کے لیے رجوع کیا، جس پر امجد پرویز نے آگاہ کیا کہ ضمانت کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع نہیں کیا۔

جسٹس مشیرعالم کا کہنا تھا کہ پھر پہلے شہباز شریف کا ٹرائل ہونے دیں، اگر شہباز شریف بری ہوئے تو حمزہ بھی ہو جائیں گے۔

سپریم کورٹ نے دلائل سننے کے بعد احتساب عدالت لاہور سے نیب مقدمات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024