ایل این جی ریفرنس: فرد جرم عائد کرنے میں 'تکنیکی خامیوں' پر اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری
کراچی کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر شیخ عمران الحق کے خلاف ریفرنس میں فرد جرم عائد کرنے میں 'تکنیکی خامیوں' پر قومی احتساب بیورو (نیب) اور عدالتی افسران کو نوٹس جاری کردیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیب نے دسمبر 2019 میں مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کے درآمدی ٹھیکوں کے کیس میں شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسمٰعیل اور شیخ عمران الحق سمیت 10 ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ راولپنڈی کی ایک احتساب عدالت میں گزشتہ ہفتے نامزد ملزمان کے خلاف کراچی سے ویڈیو لنک کے ذریعے فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایل این جی ریفرنس میں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسمعٰیل پر فرد جرم عائد
راولپنڈی کی احتساب عدالت نے کراچی کی احتساب عدالتوں کے انتظامی جج عبدالغنی سومرو سے درخواست کی تھی کہ فرد جرم عائد کرنے اور نامزد ملزمان کے کراچی کی احتساب عدالت کے سامنے بیان ریکارڈ کرنے کے انتظام کریں۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ کراچی کی احتساب عدالت نمبر 2 کی جج عالیہ لطیف انڑ نے ویڈیو لنک کے ذریعے سابق وزیراعظم سمیت تمام ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد کیے جانے کی کارروائی کی سربراہی کی اور تمام ملزمان حاضر تھے۔
چنانچہ راولپنڈی کے جج نے وہ تمام ملزمان، جنہوں نے جرم سے انکار کردیا تھا اور کیس لڑنے کا فیصلہ کیا تھا، ان پر فرد جرم عائد کردی۔
تاہم عدالتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ یہ ساری کارروائی اس وقت 'ناقص' ہوگئی کہ جب کراچی کی عدالت میں اس کارروائی کی نگرانی احتساب عدالت کے رجسٹرار، نائب رجسٹرار کے بجائے ایک لوئر ڈویژن کلرک نے کی۔
مزید پڑھیں: سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پر پی ایس او کیس میں فرد جرم عائد
ذرائع نے مزید کہا کہ نیب کا تعینات کردہ عدالتی عملہ اور اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر بھی دستاویز پر قانون کے مطابق دستخط لینے میں ناکام رہے۔
چنانچہ جج عالیہ لطیف نے نیب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جو کارروائی کے موقع پر موجود تھے اور عدالتی افسران کو اظہار وجوہ کا نوٹس بھیج دیا کہ فرد جرم کی کارروائی میں نقائص پر ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے۔
عدالتی افسران نے کہا کہ لوئر ڈویژن کلرک کو اس عمل کی نگرانی کا اختیار نہیں کیوں کہ یہ انتظامی عدالتوں کے رجسٹرار یا اسسٹنٹ رجسٹرار کا کام ہے۔
ایل این جی کیس
خیال رہے کہ 16 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل سمیت دیگر ملزمان پر ایل این جی ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں پر الزام ہے کہ انہوں نے اس وقت قوائد کے خلاف ایل این جی ٹرمینل کے لیے 15 سال کا ٹھیکہ دیا، یہ ٹھیکہ اس وقت دیا گیا تھا جب سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں شاہد خاقان عباسی وزیر پیٹرولیم تھے۔
نیب کی جانب سے اس کیس کو 2016 میں بند کردیا گیا تھا لیکن بعد ازاں 2018 میں اسے دوبارہ کھولا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ایل این جی کیس: نیب نے شاہد خاقان عباسی کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کردیا
یاد رہے کہ نیب انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم کی انتظامیہ نے غیر شفاف طریقے سے ایم/ایس اینگرو کو کراچی پورٹ پر ایل این جی ٹرمینل کا کامیاب بولی دہندہ قرار دیا تھا۔
اس کے ساتھ ایس ایس جی سی ایل نے اینگرو کی ایک ذیلی کمپنی کو روزانہ کی مقررہ قیمت پر ایل این جی کی ریگیسفائینگ کے 15 ٹھیکے تفویض کیے تھے۔
نہ صرف شاہد خاقان عباسی بلکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف پر بھی اپنی مرضی کی 15 مختلف کمپنیوں کو ایل این جی ٹرمینل کا ٹھیکہ دے کر اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
2016 میں مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں نیب کراچی میں منعقدہ ریجنل بورڈ کے اجلاس میں شاہد خاقان عباسی کے خلاف انکوائری بند کردی گئی تھی۔
رواں برس 2 جنوری کو ای بی ایم نے اس وقت شاہد خاقان عباسی کے خلاف 2 انکوائریز کی منظوری دی تھی، جب وہ سابق وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل تھے۔
ان انکوائریز میں سے ایک ایل این جی کی درآمدات میں بے ضابطگیوں میں ان کی مبینہ شمولیت جبکہ دوسری نعیم الدین خان کو بینک آف پنجاب کا صدر مقرر کرنے سے متعلق تھی۔
تاہم شاہد خاقان عباسی کا موقف ہے کہ انہوں نے ایل این جی کی درآمد کے لیے دیے گئے ٹھیکے میں کوئی بے ضابطگی نہیں کی اور وہ ہر فورم پر اپنی بے گناہی ثابت کرسکتے ہیں اور یہ کہ 2013 میں ایل این جی کی برآمدات وقت کی اہم ضرورت تھی۔