مقبوضہ کشمیر پر او آئی سی کی قرارداد کے خلاف بھارت کا بیان مسترد
پاکستان نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے حق میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی متفقہ قرارداد کے خلاف بیان کو حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر کے تنازع پر او آئی سی کی قرارداد پر بھارتی وزارت خارجہ کے غیر مدلل بیان کو مسترد کرتا ہے’۔
بیان میں کہا گیا کہ ‘نائیجر کے شہر نیامے میں 28 نومبر 2020 کو او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کے 47ویں سیشن میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے متفقہ قرارداد منظور کی گئی تھی’۔
مزید پڑھیں: او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں تنازع کشمیر، اسلاموفوبیا کے خلاف قراردادیں منظور
دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ‘او آئی سی مسلم امہ کی مشترکہ آواز اور اقوام متحدہ کے بعد 57 رکن اور 5 مبصر ممالک پر مشتمل دنیا کا دوسرا بڑا ادارہ ہے’۔
بھارت کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ ‘جموں و کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں شامل دنیا کے پرانے تنازعات میں سے ایک ہے’۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا کہ ‘یہ بدستور حل طلب مسئلہ ہے کیونکہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں’۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ ‘او آئی سی کی تازہ قرارداد بذات خود بھارت کے مقبوضہ کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دینے کے مکمل افسانوی اور غیر قانونی مؤقف کی تردید ہے’۔
بیان میں بتایا گیا کہ ‘او آئی سی کی قرارداد نے مزید ثابت کیا ہے کہ بھارت نہ تو کشمیریوں کے قتل عام اور منصوبہ بندی کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپا سکتا ہے اورنہ ہی ان کے حق خود ارادیت کی نفی کر سکتا ہے’۔
بھارت کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا کہ ‘بھارت اپنے گھناؤنے عمل سے عالمی توجہ نہیں ہٹا سکتا’۔
یہ بھی پڑھیں: 'او آئی سی اجلاس کے ایجنڈے پر مسئلہ کشمیر نہ ہونے کی رپورٹس بھارتی پروپیگنڈا ہیں'
دفتر خارجہ نے کہا کہ ‘بھارت، او آئی سی کی قرارداد کی صورت میں عالمی برادری کے سامنے آنے والے تحفظات کو مسترد کرنے کے بجائے اس پر توجہ دے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی روکے’۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ‘بھارت جموں و کشمیر میں اپنے غیر قانونی اور جبری تسلط سے دستبردار ہوجائے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق تنازع کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے’۔
خیال رہے کہ او آئی سی نے 29 نومبر کو وزرائے خارجہ کونسل اجلاس میں تنازع جموں و کشمیر اور اسلاموفوبیا کے خلاف قراردادیں متفقہ طور پر منظور کر لی تھیں۔
دفتر خارجہ نے اس حوالے سے جاری بیان میں کہا تھا کہ نیامے میں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے 47ویں اجلاس میں متفقہ طور پر منظور کی گئی پہلی قرارداد میں تنازع کشمیر کی مضبوط حمایت کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔
او آئی سی نے بھارت کے 5 اگست 2019 کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو یکسر مسترد کردیا اور قرارداد کے ذریعے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے اجرا کے ساتھ دیگر یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات منسوخ کرے۔
ان اقدامات میں جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن آرڈر 2020، جموں و کشمیر گرانٹ آف ڈومیسائل سرٹیفکیٹ رولز 2020، جموں و کشمیر لینگویج بل 2020 اور زمین کی ملکیت سے متعلق قوانین میں ترامیم شامل ہیں۔
دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا تھا کہ او آئی سی کے 57 ممالک نے آر ایس ایس۔بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ متنازع خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے حوالے سے کوئی بھی قدم اٹھانے سے باز رہے۔
مزید پڑھیں: او آئی سی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی ختم کرنے کیلئے کام کرے، پاکستان
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ قرارداد میں بھارتی فورسز کے مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی پامالیوں، جعلی انکاؤنٹرز اور نام نہاد آپریشنز میں ماورائے عدالت قتل سمیت ریاستی دہشت گردی کے دیگر واقعات کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ قرارداد میں معصوم شہریوں کے خلاف پیلٹ گنز کے استعمال، کشمیری خواتین کو ہراساں کرنے کی بھی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت مسلسل کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کو ملٹری کریک ڈاؤن بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قرارداد میں بھارت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ کا کردار ایل او سی کے اطرف بڑھائے، جموں و کشمیر، سرکریک اور دریائی پانی سمیت تمام تنازعات عالمی قانون اور ماضی کے معاہدات کے مطابق طے کرے۔