'کراچی میں 144 میں سے صرف 14 فائر ٹینڈرز کام کر رہے ہیں'
کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں مقامی حکام نے بتایا کہ کراچی میں صرف 14 فائر ٹینڈرز کام کررہے ہیں اور 30 گاڑیاں گزشتہ 6 ماہ سے ناقص ہیں اور انہیں مرمت کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے جس پر عدالت نے مقامی انتظامیہ پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں دو ججز پر مشتمل بینچ نے میٹرو پولیٹن کمشنر کو فائر ٹینڈرز کی بحالی کی ہدایت کی اور پیشرفت رپورٹ کے ساتھ 8 دسمبر کو طلب کیا۔
بینچ نے ٹاسک فورس کو ہدایت کی کہ وہ عمارتوں اور صنعتوں کے معائنے کے بارے میں ایک طریقہ کار پیش کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ وہ آگ سے محفوظ رہنے کے تمام اقدامات پر عمل پیرا ہیں۔
مزید پڑھیں: واجبات کی عدم ادائیگی: کے ایم سی ٹھیکیداروں نے سڑکوں کی مرمت کا کام روک دیا
انہوں نے فائر بریگیڈ کی ہیلپ لائن کی بحالی میں غیر معمولی تاخیر پر نیشنل ٹیلی کمیونکیشن کارپوریشن (این ٹی سی) کے ڈویژنل انجینئر کو بھی طلب کیا۔
عدالت صوبہ بھر میں بلڈنگ کوڈ آف پاکستان اور فائر سیفٹی پروویژنز 2016 کے نفاذ کے لیے درخواست پر سماعت کر رہی تھی جس میں سول ڈیفنس ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی کنٹرولر شاہد مسرور نے جواب جمع کرایا کہ شہر کی 80 فیصد عمارتوں میں ہنگامی صورتحال کے لیے خارجی راستے، فائر ہائیڈرنٹس اور دیگر حفاظتی آلات نہیں ہے اور زیادہ تر کثیر المنزلہ عمارتوں تک فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کی رسائی بھی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید عرض کیا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) سے کہا جائے کہ وہ بغیر معائنے کے تجارتی یا صنعتی و رہائشی عمارتوں کی تکمیل کا سرٹیفکیٹ جاری نہ کرے کیونکہ حفاظتی قوانین اور بلڈنگ کوڈ آف پاکستان 2016 کے تحت این او سی جاری کرنے کی ذمہ داری سول ڈیفنس ڈپارٹمنٹ کی ہے۔
گزشتہ سماعت میں بینچ نے ایس بی سی اے کو یہ بھی ہدایت کی تھی کہ حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے اور عمارتوں کے معائنے کے لیے سول ڈیفنس ڈپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر میکانزم یا ہم آہنگی کے حوالے سے اپنی رائے پیش کریں۔
تاہم کارروائی کے دوران ایس بی سی اے کے ماحولیات اور بلڈنگ سروسز کے ڈائریکٹر ندیم احمد نے استدعا کی کہ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نے کچھ دن پہلے ہی اپنا عہدہ سنبھالا ہے انہیں مزید وقت دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی کے 3 بڑے نالوں کی صفائی کا کام ایف ڈبلیو او کے سپرد
انہوں نے کہا کہ احکامات کی روشنی میں انہوں نے چند مسودے تیار کیے ہیں اور وہ منظوری کے لیے ڈی جی کے سامنے رکھا جائے گا۔
اسسٹنٹ کمشنر اعزاز حسین رند نے بھی کمشنر آفس کی جانب سے اپنا بیان جمع کرایا جس میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ شکایات کے ازالے کے لیے کمشنر کے دفتر میں پہلے ہی فائر ایمرجنسی کنٹرول روم قائم کردیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کنٹرول روم کو چلانے کے لیے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے چیف فائر آفیسر (سی ایف او) سے تکنیکی افسران دینے کے لیے بھی رابطہ کیا ہے۔
بینچ نے نشاندہی کی کہ ایک ٹیلیفون لائن کراچی کے لوگوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے تاہم عہدیدار نے بینچ کو یقین دلایا کہ مزید لائنیں شامل کی جائیں گی اور وہ اگلی سماعت میں پیشرفت رپورٹ پیش کریں گے۔
کے ایم سی کے سی ایف او مبین احمد نے بینچ کو بتایا کہ فائر بریگیڈ کا محکمہ صرف 14 فعال فائر ٹینڈرز کے ساتھ کراچی میں 22 کنٹرول سینٹرز پر کام کر رہا ہے اور اس طرح کے کم از کم 30 ٹینڈرز گزشتہ 6 ماہ سے خراب پڑے ہیں تاہم ان گاڑیوں کو مرمت کے لیے نہیں بھیجا گیا۔
بینچ نے مشاہدہ کیا کہ واقعی یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے کہ ایک میگا سٹی میں صرف 14 فائر ٹینڈرز کام کر رہے ہیں۔
عدالت نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سے سوال کیا کہ فائر ٹینڈرز کی دیکھ بھال کا ذمہ دار کون ہے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ یہ کے ایم سی کی ذمہ داری ہے۔
اس کے بعد بینچ نے میٹرو پولیٹن کمشنر کو 8 دسمبر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کے لیے طلب کرلیا اور کہا کہ وہ 30 فائر ٹینڈرز کی بحالی کا کام شروع کریں گے اور پیشرفت رپورٹ جمع کرائیں گے۔
سی ایف او نے مزید بتایا کہ شہر میں مون سون بارشوں کے بعد ہیلپ لائن '16' ناقابل عمل ہے اور این ٹی سی کو بھی شکایت درج کروائی گئی ہے تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
بینچ نے این ٹی سی کے ڈویژنل انجینئر کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر اپنی موجودگی کو یقینی بنائے۔