ڈینیئل پرل کیس: ملزمان کی رہائی کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل قتل کیس میں ملزمان کی رہائی کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
بدھ کو جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل قتل کیس کی سماعت کی۔
مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: عمر شیخ کی سزائے موت 7 سال قید میں تبدیل، 3 ملزمان رہا
بینچ نے ریمارکس دیے کہ ڈینیئل پرل کے اہلخانہ کے وکیل مصروفیات کی وجہ سے پیش نہیں ہوسکے، حتیٰ کہ کراچی رجسٹری میں ویڈیو لنک کی سہولت موجود ہے اور وکلا کراچی رجسٹری میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوتے رہتے ہیں۔
دوران سماعت ملزمان کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ کیس کے ملزمان 19 سال سے جیل میں ہیں، سندھ ہائی کورٹ نے 2 اپریل کو ڈینیئل پرل قتل کیس کا فیصلہ سنایا لیکن اس کے باوجود ملزمان غیرقانونی حراست میں ہیں۔
سندھ حکومت کے وکیل نے ملزمان کی رہائی کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ معطل نہ ہوا تو سندھ حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے۔
اس پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ اتنے عرصے سے اپیل زیر التوا ہے، پہلے کچھ نہیں ہوا تو اب بھی کچھ نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: عمر سعید شیخ: ایک طالبعلم سے مجرم تک کا سفر
عدالت نے ڈینیئل پرل کیس میں ملزمان کی رہائی کا فیصلہ معطل کرنے کی سندھ حکومت کی استدعا مسترد کردی۔
تاہم عدالت نے ڈینیئل پرل کے والدین اور سندھ حکومت کے وکیل کی جانب سے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا منظور کرلی۔
کیس کی سماعت دسمبر کے پہلے ہفتے میں دوبارہ ہوگی۔
ڈینیئل پرل قتل کیس
یاد رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔
سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے ملزمان 3 ماہ کیلئے زیرحراست
بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔
عدالت نے مقدمے میں نامزد 4 ملزمان کی سزا کے خلاف دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔
فیصلے کے خلاف سندھ حکومت کی درخواست
واضح رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی کی قتل کی ویڈیو کی ایک سرکاری عہدیدار (پی ٹی وی کے ایک ماہر) سے تصدیق کروائی گئی تھی جبکہ اسے کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔
چنانچہ جمع شدہ ثبوتوں اور خاص کر ملزم اور شریک ملزمان کے اعترافی بیانات کے تناظر میں ہائی کورٹ کی جانب سے سزا میں تبدیلی اور بریت پائیدار نہیں اور اسے کالعدم ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: حکومت سندھ کی حکم امتناع کی درخواست مسترد
اسی طرح فطری اور آزاد شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تاوان کا مطالبہ ملزم نے ہی کیا تھا اور ڈاکیومینٹری ثبوت سے یہ بات ثابت بھی ہوئی چنانچہ سزا میں تبدیلی اور بریت غیر قانونی ہے۔
اپیل میں کہا گیا تھا کہ ملزم ایسا کوئی مواد پیش نہیں کرسکا جو پروسیکیوشن کے ثبوتوں کے خلاف شک پیدا کرتا بلکہ شریک ملزمان نے ریمانڈ کے دوران ٹرائل جج کے سامنے اپنا جرم قبول کیا۔
عدالت عظمیٰ میں دائر اپیل میں کہا گیا تھا کہ ہائی کورٹ اس کیس کے سنگین عوامل سمجھنے میں ناکام رہی جبکہ ملزم اور شریک ملزمان کی بریت اور سزائے موت میں تبدیلی کا فیصلہ انصاف کا قتل اور عدالت عظمیٰ کے طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔