• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm

ہماری معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی ہے، شبلی فراز

شائع November 3, 2020
—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے دعویٰ کیا ہے کہ کورونا وائرس کے بعد پاکستان کی معیشت دنیا کی دیگر معیشتوں کے مقابلے میں زیادہ متحرک ہے اور اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی ہے۔

اسلام آباد میں کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شبلی فراز نے کہا کہ ہماری معیشت پاؤں پر کھڑی ہوگئی ہے، کورونا کے بعد دنیا کی دیگر معیشتوں کی نسبت ہماری معیشت زیادہ متحرک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مختلف شعبوں میں معاشی سرگرمیاں بھی ہو رہی ہیں، جس میں تعمیرات سب سے زیادہ متحرک ہے، اس کے علاوہ سیمنٹ، سریا وغیرہ کی فروخت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا صنعتوں کے لیے بجلی کی ’پیک آور‘ قیمت ختم کرنے کا اعلان

انہوں نے کہا کہ اسی طرح معیشت کے دوسرے پہلوؤں میں بھی بہتری آئی ہے، نمو بھی مثبت ہے اور برآمد بڑھی ہیں، ٹیکسٹائل کے شعبے میں بھی بڑی تیزی آئی ہے یہاں تک نئے آرڈرز لینے کی گنجائش بھی نہیں ہے۔

شبلی فراز نے کہا کہ وزیراعظم چاہتے تھے کہ ان سرگرمیوں کو مزید سہولیات دینے کے لیے بجلی کی قیمتوں میں چھوٹ دی جائے، چھوٹی صنعتوں اور دیگر کاروبار کو اضافی بجلی پر یکم نومبر سے 25 فیصد رعایت دی گئی ہے، اسی طرح 'پیک اور' اور 'آف پیک اور' کے ٹیرف کو ایک کر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آف پیک اور' 7 سے 11 بجے کے علاوہ تھا جس میں تمام صنعتیں 7 بجے تک چلتی تھیں جبکہ پیک اوورز کے ریٹ زیادہ ہوتے تھے اب اس کو ختم کردیا گیا ہے اور کوئی پیک اوور اور سلیب نہیں ہوگا، اس طرح ان صنعتوں کو بھی موقع دیا گیا کہ جو تیسری شفٹ میں بھی کام کرنا چاہتی ہیں تاکہ انہیں آسانی ہو۔

انہوں نے کہا کہ بجلی میں رعایت سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کو بھی چھوٹ ملے گی، ان ساری چیزوں کا مقصد یہی ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں مزید تیزی آئے اور ملک میں خوش حالی ہوگی اور روزگار کے مواقع ملیں گے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت جو کچھ کرسکتی ہے وہ کر رہی ہے تاکہ معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔

سیاسی حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اس وقت پی ڈی ایم کے نام سے متحرک ہے اور ایک ایسے بیانیے کو لے کر چل رہی ہے جو اس ملک کے اداروں اور ریاست کے مقام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے، اس اپوزیشن کو یہ واضح ہوگیا کہ ان کے پاس کوئی 'پتا' نہیں، آخری 'پتا' ایف اے ٹی ایف پر کھیلا جس میں ناکام ہوئے اور انہیں معلوم ہے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان کے پاس کوئی 'پتا' نہیں رہا۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں موٹر سائیکل کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی ماضی میں کارکردگی سے ملک کو نقصان پہنچا اور ہمارے بہترین دماغ بیرون ملک گئے اور وہاں پر خدمات انجام دیتے ہیں، اسی طرح ملک میں میرٹ کا نظام تباہ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ ایاز صادق کہہ رہے ہیں پوسٹرز لگ گئے ہیں لیکن پوسٹرز ہم نے نہیں لگائے، خود انہوں نے عوام کا غم و غصہ اپنے طرف راغب کیا ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے سال کے شروع میں کووڈ 19 سے متعلق اقدامات پر کنفیوژن پھیلایا، اگر کسی بات مانتے تو خوانخواستہ ہمارا حال بھی ہمسائیوں جیسا ہوتا، اسی طرح گندم اور چینی کے معاملے پر حکومت سندھ اور پیپلزپارٹی کا کردار شرم ناک رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے وقت پر گندم جاری نہیں کی گئی جس کی وجہ سے طلب اور رسد میں مسئلہ پیدا ہوا اور گندم کے اس مسئلے کی ذمہ دار حکومت سندھ اور پیپلزپارٹی ہے۔

قبل ازیں وفاقی وزرا اور مشیر خزانہ کے ہمراہ نیوز بریفنگ میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی بجلی بھارت اور بنگلہ دیش میں صنعتکاروں کو دی جانے والی بجلی سے 25 فیصد مہنگی ہے جن کے ساتھ ہماری برآمدات میں مسابقت ہے۔

بجلی مہنگی ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے بجلی بنانے کے مہنگے ٹھیکے سائن کیے گئے جس کی وجہ سے ملک میں بہت سے مسئلے مسائل آئے اور ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہماری صنعت، کم قیمت بجلی استعمال کرنے والی صنعتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

یہ بھی پڑھیں: اکتوبر میں مہنگائی معمولی سی کم ہوکر 8.9 فیصد رہی

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے برآمد کنندگان کو بہت سی مراعات دیں اور برصغیر میں پاکستان وہ ملک ہے جس کی برآمدات وبا کے اثرات سے تیزی سے باہر آئیں اور ویسے بھی پاکستان وبا کی صورتحال سے سب سے بہتر طور پر نمٹا ہے جس کا دنیا نے اعتراف کیا ہے۔

صنعتوں کو بجلی پر چھوٹ دینے سے متعلق انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ یکم نومبرسے چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعت کے لیے معمول سے زیادہ بجلی کے استعمال پرآئندہ برس جون تک 50 فیصد رعایت دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ 3 سالوں تک ہر قسم کی صنعت کے لیے 25 فیصد کم قیمت پر اضافی بجلی فراہم کی جائے گی یعنی صنعتوں کے لیے اب پورا وقت آف پیک آور تصور کیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024