• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

اب عمران خان این آر او چاہ رہے ہیں مگر ہم نہیں دے رہے، مولانا فضل الرحمٰن

شائع October 16, 2020
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ ہم عہدوں کے لیے نہیں بلکہ مقصد کے لیے پی ڈی ایم کا حصہ ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ ہم عہدوں کے لیے نہیں بلکہ مقصد کے لیے پی ڈی ایم کا حصہ ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ہم عہدوں کے لیے نہیں بلکہ مقصد کے لیے پی ڈی ایم کا حصہ ہیں اور اب عمران خان ہم سے این آر او چاہ رہے ہیں لیکن ہم نہیں دے رہے۔

لاہور میں پی ڈی ایم کے پہلے جلسے سے قبل لاہور میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کا یہ اتحاد ان حکمرانوں کی کشتی کو غرق آب کرنے کے لیے سنگ میل ثابت ہو گا، ہماری کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں لیکن یہ محسوس ہونا چاہیے کہ پاکستان، پاکستانیوں کا ہے۔

مزید پڑھیں: این آر او دینا ہمارے لیے آسان لیکن ملک کیلئے تباہی کا راستہ ہے، عمران خان

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مغربی آقاؤں کا نہیں، پاکستان عالمی اسٹیبلشمنٹ کی حکمرانی کے لیے معرض وجود میں نہیں آیا تھا، دنیا میں سازشیں ہوتی ہیں، اپنی مرضی کی حکومتیں قوموں پر مسلط کی جاتی ہیں، اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرائی جاتی ہے اور آج بھی آپ نے دیکھا کہ ان دو سالوں میں اگر کوئی قانون سازی ہوئی ہے اور 11 سے 12 قوانین بنے ہیں تو وہ بھی ایف اے ٹی ایف کی شرائط کے تحت بنے ہیں۔

پارلیمنٹ کی بالادستی اور خودمختاری کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا، بل پر باقاعدہ اس کے اغراض و مقاصد لکھے جاتے ہیں، اس کا موضوع لکھا جاتا ہے جس میں صراحت کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر قانون سازی ہو رہی ہے، اگر ہم نے یہ لکھنا ہے تو اس پارلیمنٹ کی نفی خود پارلیمنٹ کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری دلیل مضبوط ہے کہ یہ پارلیمنٹ معتبر پارلیمنٹ نہیں ہے، یہ عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ نہیں ہے، یہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں اور دباؤ کے تحت لائی گئی پارلیمنٹ ہے اور آج بھی ان کے ایجنڈے پر قانون سازی کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کو این آر او طرز کی کوئی رعایت نہیں دی جائے گی، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے حکمرانوں کی حکمرانی کا خاتمہ کرنے کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر ہیں اور آج سب متحد ہو کر گوجرانوالہ میں قوم سے مخاطب ہوں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج پوری اپوزیشن متحد ہے اور یہ تاثر ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی بھی سیاسی قوت کسی مفاہمت کے انتظار میں ہے یا وہ کسی سیاسی مفاہمت سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور عام آدمی کے ووٹ کو دوبارہ عوام تک پہنچانے کے لیے پوری طرح متحد ہیں۔

تحریک انصاف کے دھرنے سے موازنے کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ان کا دھرنا ایک منتخب پارلیمنٹ کے خلاف تھا، اب ہم ایک ناجائز پارلیمنٹ کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت جو صورتحال بن رہی ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کو دسمبر نصیب نہیں ہو سکے گا۔

مزید پڑھیں: 'ہم نے این آر او نہیں مانگا ہم جیل جانے کے لیے تیار ہیں'

این آر او کے حوالے سے سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور اب عمران خان ہم سے این آر او چاہ رہے ہیں لیکن ہم نہیں دے رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب جو صورتحال بننے جا رہی ہے تو اب ان ہاؤس تبدیلی کے حوالے سے سوچنے کا وقت نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان میں عام انتخابات ہونے چاہئیں اور عوام کو یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ اپنا فیصلہ خود کریں اور ان ضابطوں کے تحت کریں کہ جس میں دھاندلی کا احتمال نہ ہو۔

پی ڈیم ایم کی قیادت میں تبدیلی کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس وقت ایسی کوئی بات زیر بحث نہیں ہے اس لیے اس پر بات کرنے سے توجہ ہٹ جائے گی، ہم پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں عہدوں کے لیے نہیں، مقصد کے لیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کسی کو بھی این آر او نہیں دیں گے، شبلی فراز

جب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ امپائر کی انگلی کا انتظار کریں گے تو انہوں نے کہا کہ پہلے والی انگلی تو نکلے ناں، پھر دوسری انگلی کی بات ہو گی۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کراچی میں مولانا عادل خان کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم جتنا سیاسی عمل کو آگے بڑھائیں گے، جتنا طاقتور بنائیں گے اتنا ہی فرقہ واریت جیسی چیزیں تحلیل ہوتی جائیں گی، اگر فرقہ واریت پیدا ہوتی ہے تو سیاسی عمل ہی اس پر قابو پا سکتا ہے اور اس خلیج کو پاٹ سکتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024