2 سال میں سب کچھ ٹھیک نہیں کرسکتے، شبلی فراز نے مہنگائی کی ذمہ داری اپوزیشن پر ڈال دی
وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے بڑھتی ہوئی مہنگائی پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر اپوزیشن کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہی ملک کے افسوسناک حالات کے ذمہ دار ہیں۔
ایوان بالا میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’(اپوزیشن) کہتی ہے کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے (لیکن) آپ اس کی بنیادی وجہ ہیں، انہوں نے گزشتہ 40 سے 50 سالوں میں اپنی پالیسیوں سے سرکاری اداروں کو ختم کیا (پھر بھی) آپ ہم سے توقع کرتے ہیں کہ ہم اسے دو سالوں میں ٹھیک کردیں گے‘۔
مہنگائی میں اضافے کا اعتراف کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ ایک ’عارضی چیز‘ ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں اس کا ازالہ ہو جائے گا، ’ہم اسے ٹھیک کریں گے اور ملک اور سرکاری اداروں کو اپنے دونوں پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنائیں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن کا مقصد مہنگائی، بے روزگاری نہیں بلکہ اپنا سابقہ دور واپس لانے کے لیے ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم اگر (اپوزیشن) یہ سوچتی ہے کہ وہ ہم پر دباؤ ڈال سکتے ہیں جیسے انہوں نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس قوانین اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے قوانین کے بارے میں کوشش کی تھی تو ایسا نہیں ہوگا‘۔
مزید پڑھیں: پی ڈی ایم گوجرانوالہ میں اپنا پہلا پاور شو دکھانے کیلئے تیار
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آج (جمعہ) کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا باقاعدہ اجلاس طلب کیا تھا، اسی دن گوجرانوالہ میں اپوزیشن کی زیر قیادت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اپنی پہلی ریلی کی تیاری کی جارہی ہے۔
اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ریلی عمران خان کی حکومت کا اقتدار ختم کرنے کی بنیاد رکھے گی۔
سینیٹ اجلاس کے دوران وزیر اطلاعات نے کہا کہ اپوزیشن گوجرانوالہ ریلی کا انعقاد ’سعد رفیق کی پسند‘ کے مطابق نہیں بلکہ ’دو شاہی خاندانوں‘ کے تحفظ کے لیے کررہی ہے جو اقتدار میں آنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کہتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی، ڈیٹا اکٹھا کریں اور دیکھیں کہ آپ نے کتنی انتخابی درخواستیں دائر کیں اور پی ٹی آئی نے کتنی دائر کیں'۔
انہوں نے سوال کیا کہ یہ کون سے دوہرے معیار ہیں کہ اپوزیشن تب ہی خوش ہوتی ہے جب ان کی خواہش کے مطابق معاملات آگے بڑھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے ’خود کو بے نقاب‘ کردیا ہے اور وہ دوبارہ اقتدار میں نہیں آئیں گے، ’ان کے (سیاست میں) دن گزر چکے ہیں‘۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن دو خاندانوں کی پبلک لمیٹڈ کمپنی کی نمائندگی کرتی ہے، جب عمران خان نے ان کی شراکت داری توڑی تو ان کو پورے ملک کے مفاد، جمہوریت اور ووٹ کی عزت کا بھی خیال آگیا، اپنی حکومت میں انہیں ووٹ کی عزت کے بجائے نوٹ کی عزت کا خیال تھا‘۔
یہ بھی پڑھیں: تمام اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہے، مولانا فضل الرحمٰن
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے معیشت، اداروں کو تباہ ہوتے دیکھا مگر پارلیمنٹ کو صرف اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا اور اپنے لیے دولت جمع کی‘۔
گوجرانوالہ جلسے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے چیلنج کیا تھا کہ گراؤنڈ بھر کر دکھائیں تو انہوں نے آج آدھے اسٹیڈیم میں اسٹیج بنا کر خود اپنی ہار کو قبول کرلیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’تمام کرپٹ عناصر عمران خان کے خلاف کھڑے ہیں تاہم عمران خان اس ملک کو لوٹنے والوں کے چنگل سے نکال کر رہیں گے‘۔
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق آج کے اجلاس کے دوران سینیٹ نے دو قرار دادیں منظور کیں جن میں سابق سینیٹرز سید قربان علی شاہ اور حضرت حمید الدین سیالوی کی موت پر غم اور افسوس کا اظہار کیا گیا۔
گزشتہ روز دو مختلف دہشت گردی کے حملوں میں شہید ہونے والے سیکیورٹی اہلکاروں اور نجی محافظوں کے لیے سینیٹ میں دعائیں بھی کی گئیں۔
وقفہ سوالات کے سیشن کے دوران وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کہا کہ غیر ملکی ترسیلات زر سے گزشتہ سالوں کے مقابلے میں 20 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’چند حلقوں کی مزاحمت کے باوجود حکومت نے منی لانڈرنگ کے قوانین کو مضبوط کیا ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب اسے قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے، ایف اے ٹی ایف آئندہ اجلاس میں اس سلسلے میں پاکستان کی پیشرفت کو نوٹ کرے گا۔
اجلاس طلب کرنے پر پیپلز پارٹی کی تنقید
پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے حکومت کے اس اقدام کو اپوزیشن رہنماؤں کی گوجرانوالہ میں ریلی میں شرکت سے روکنے کی کوشش قرار دیا۔
سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’سینیٹ اور قومی اسمبلی کا اجلاس آج اچانک طلب کیا گیا تاکہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو گوجرانوالہ جلسے میں شرکت سے روکا جاسکے، پوسٹرز ہٹائے جارہے ہیں، جھنڈے اتارے گئے ہیں، ہر جگہ کنٹینر لگا دیئے گئے، پی پی پی اور پی ڈی ایم کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، کیا تباہی سرکار کو معلوم نہیں کہ یہ طریقہ کام نہیں کرے گا‘۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس شام ساڑھے چار بجے شروع ہوگا۔
مزید پڑھیں: پی ڈی ایم جلسے کے اعلان پر حکومت نے 'پولیس گردی' شروع کردی، احسن اقبال
صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 54 (1) کے تحت دیے گئے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ اجلاس طلب کیے ہیں۔
نوٹیفکیشن جاری ہونے کے فورا بعد ہی پیپلز پارٹی نے حکومت کے فیصلے پر تنقید کی تھی۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے گزشتہ ماہ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قاید حزب اختلاف شہباز شریف کی گرفتاری سمیت چھ نکاتی ایجنڈے پر تبادلہ خیال کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے 5 اکتوبر کو درخواست نوٹس جمع کرایا تھا۔
شہباز شریف کی گرفتاری پر تبادلہ خیال کے علاوہ اپوزیشن ’ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، خواتین کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات، زندگی بچانے والی دوائیوں کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافے، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، گردشی قرضوں میں 23 کھرب روپے سے زائد کا اضافہ اور پاکستان کے خارجی تعلقات میں خراب ہونے جس سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں، کے معاملات پر بھی بات کرنا چاہتی تھی۔
طلبی کے نوٹس میں اپوزیشن کے 125 ارکان کے دستخط تھے۔
اسپیکر اسمبلی اسد قیصر قومی اسمبلی کا اجلاس 19 اکتوبر تک طلب کرنے کے پابند تھے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 54 (3) میں کہا گیا ہے کہ ’قومی اسمبلی کی کل رکنیت کے ایک چوتھائی حصے کے دستخط شدہ درخواست پر اسپیکر ان کے حساب سے مناسب وقت اور مقام پر نوٹس کی وصولی کے چودہ روز کے اندر اندراجلاس طلب کریں گے‘۔
چونکہ حکومت نے اپنا باقاعدہ اجلاس طلب کیا ہے تو اپوزیشن کی جانب سے جمع کرائے گئے نوٹس کا تکنیکی طور پر اب کوئی اثر نہیں ہوگا۔
تاہم اپوزیشن کے ذرائع نے بتایا کہ وہ حکومت پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ ایجنڈا لیں جو انہوں نے اپنے نوٹس میں پیش کیا ہے۔
واضح رہے کہ پارلیمانی کیلنڈر کے مطابق قومی اسمبلی کا باقاعدہ اجلاس 5 اکتوبر کو شروع ہوکر 16 اکتوبر تک جاری رہنا تھا۔