وہ فلم جس کا جادو 26 سال بعد بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے
کیا آپ فلمیں دیکھنے کے شوقین ہیں؟ اگر ہاں تو اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ کچھ فلموں کو ایسے زبردست انداز سے بنایا جاتا ہے کہ انہیں بار بار دیکھ کر بھی دل نہیں بھرتا۔
ایسی ہی ایک فلم جسے ہر دور کی ایسی فلموں کا شامل کیاگیا ہے جن کے بارے میں حاتم طائی کا یہ سوال درست محسوس ہوتا ہے ' ایک بار دیکھا ہے دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے'۔
تو اس فلم کو دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ یہ کس حد تک ٹھیک ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فلم اپنی ریلیز کے وقت اتنی زیادہ مقبولیت یا کامیابی حاصل نہیں کرسکی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کی کہانی، اداکاری اور ڈائریکشن وغیرہ نے لوگوں کے دل موہ لیے۔
اگر آپ نے اس فلم کو نہیں دیکھا تو اس ویک اینڈ 'دی شاشنک ریڈیمپشن' (The Shawshank Redemption) کو ضرور دیکھیں، جس کی ریلیز کو اب 26 سال مکمل ہوگئے ہیں مگر اس کا جادو اب تک سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی کہانی ہارر کہانیاں لکھنے کے لیے معروف مصنف اسٹیفن کنگ کی ایک مختصر کہانی سے لی گئی تھی جس کا اسکرین پلے فرینک ڈارابونٹ نے تحریر کیا۔
یہ ٹم رابنسن اور مورگن فری مین کی ایسی دلچسپ فلم ہے جو جیل کی دنیا کی کہانی بیان کرتی ہے۔
اگرچہ ریلیز کے بعد یہ فلم فلاپ قرار پائی مگر اس فلم کو 7 آسکر ایوارڈز کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا، مگر ایک ایوارڈ بھی نہیں مل سکا، اس کی جگہ اسی سال ریلیز ہونے والی فلم فورسٹ گمپ نے اس سال اکیڈمی ایوارڈز کا میلہ لوٹ لیا تھا۔
فلاپ ہونے کے باوجود اس کو نئی زندگی ٹی وی پر اسے ریلیز کرنے سے ملی اور پہلے اسے 1990 کی دہائی چند بہترین فلموں میں سے ایک قرار دیا گیا اور اب اسے ہر دور کی چند بہترین فلموں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔
اس فلم کے اختتام پر دکھائے جانے والا درخت جس میں مرکزی کردار نے اپنے دوست کے ایک خط چھپا کر رکھا تھا، بعد میں امید کا نشان بن گیا، جہاں ہر سال ہزاروں افراد آتے ہیں۔
پلاٹ
ڈائریکٹر فرینک ڈارابونٹ کی اس فلم کی کہانی 1947 کے زمانے کی ہے اور دو قیدیوں کے گرد گھومتی ہے، جن میں سے ایک اینڈی دفرینس (ٹم رابنسن) ایسا بینکر ہوتا ہے جسے اپنی بیوی اور اس کے آشنا کے قتل کے الزام میں قید کی سزا سنا دی جاتی ہے حالانکہ وہ بے گناہی کا دعویٰ کرتا ہے۔
جیل میں اپنے قیام کے دوران اس کی دوستی ایک اور قیدی ایلس بوئیڈ ریڈنگ (مورگن فری مین) سے ہوجاتی ہے جبکہ وہ خود کو محافظوں سے اس وقت محفوظ بنالیتا ہے جب جیل وارڈن اسے منی لانڈرنگ آپریشن کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے۔
19 سال تک اینڈی جیل سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور آخر کار بھاگ جاتا ہے اور پھر منی لانڈرنگ کا بھانڈہ پھوڑ دیتا ہے، چالیس سال بعد اس کا دوست پے رول پر رہا ہوتا ہے اور میکسیکو جاکر اینڈی کو دریافت کرتا ہے اس طرح دونوں دوست ایک بار پھر اکھٹے ہوجاتے ہیں۔
اس کہانی میں متعدد پیچ و ختم اور سسپنس چھپا ہے اور یہ ایسی فلم ہے جسے جب بھی دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ پہلی بار دیکھا جارہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے تاریخ کی دس بہترین فلموں میں سے ایک بھی قرار دیا گیا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں