• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

پاک-چین مشترکہ اعلامیے پر بھارت کا 'غیر ذمہ دارانہ' بیان مسترد

شائع August 23, 2020 اپ ڈیٹ August 30, 2020
ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری —فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری —فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

پاکستان نے بھارت کی وزارت امور خارجہ کی جانب سے چین-پاکستان وزرائے خارجہ کے اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے مشترکہ اعلامیہ پر جاری بیان کو مسترد کردیا۔

ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ پاکستان بھارت کی وزارت امور خارجہ کے ترجمان کے پاک-چین وزرائے خارجہ کے اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے دوسرے دور کے مشترکہ اعلامیے پر 'غیرضروری اور غیرذمہ دارانہ' بیان کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ بھارت کی وزارت امور خارجہ کی جانب سے جموں اور کشمیر کو بھارت کا نام نہاد 'اٹوٹ انگ' سمجھنا اور اسے 'اندرونی معاملہ' قرار دینا مضحکہ خیز ہے اور یہ تاریخی اور قانونی حقائق اور اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل (یو این ایس سی) کی متعلقہ قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔

مزید پڑھیں: سی پیک دونوں ممالک کے مشترکہ مستقبل کا اہم منصوبہ ہے، چینی صدر

ترجمان کے مطابق جموں و کشمیر بشمول بھارت کے غیرقانونی قبضے میں موجود حصوں سے متعلق بھارت کے خودساختہ دعوؤں کی کوئی بنیاد نہیں۔

مذکورہ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان، بھارت کے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے خلاف بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈے کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے اور مایوس بھارت کا یہ عمل عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوششوں کا مظہر ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارت کے پاس اس معاملے پر کوئی ٹھوس تاریخی، قانونی یا اخلاقی مؤقف نہیں ہے جبکہ بھارت کے جھوٹے دعوؤں کی بازگشت نہ تو حقائق کو تبدیل کرسکتی ہے اور نہ ہی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور کشمیری عوام کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹا سکتی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارت کو جھوٹے اور گمراہ کن سہارے لینے کے بجائے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے پورا کرنا چاہیے، مزید یہ کہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے غیرقانونی اور جبری قبضے کا خاتمہ کرنا چاہیے اور یو این ایس سی کی قردادوں کے تحت اقوام متحدہ کے زیر نگرانی آزادانہ اور غیرجانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کو خود ارادیت کا حق دینا چاہیے۔

خیال رہے کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں چین کا دورہ کیا تھا جہاں وہ اپنے چینی ہم منصب وانگ یی سے ملے تھے اور دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان اسٹریٹجک ڈائیلاگ ہوئے تھے۔

بعد ازاں ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا کہ پاکستان اور چین اپنے باہمی مفاد کے تحفظ کے لیے 'مشترکہ طور' پر کام کریں گے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ ملاقات میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اپنے مشترکہ مفادات کا تحفظ اور خطے میں امن، خوشحالی اور ترقی کے لیے 'مشترکہ' اقدامات کیے جائیں گے۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا کہ پاک-چین تعاون باہمی مفادات خدمات کے علاوہ بین الاقوامی اور علاقائی امن و استحکام کے لیے بھی فائدہ مند ہیں۔

اس ملاقات میں چین نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے الحاق کے اقدام کا حوالہ دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے اپنی حمایت کے عزم کا اظہار کیا اور ان یکطرفہ اقدامات کو مسترد کردیا۔

ساتھ ہی مشترکہ بیان میں چین کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس طرح کے اقدامات تنازع کو مزید پیچیدہ کردیں گے 'تنازع کو پرامن طریقے اور اقوام متحدہ کے چارٹر، متحدہ سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں اور دوطرفہ معاہدوں کے ذریعے حل ہونا چاہیے'۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، چین کا مشترکہ مفادات کے تحفظ کیلئے مل کر اقدامات کرنے پر اتفاق

علاوہ ازیں گزشتہ روز بھارت کی وزارت امور خارجہ نے پاکستان اور چین کی جانب سے مشترکہ اعلامیے میں مقبوضہ جموں و کشمیر کا حوالہ دینے کو مسترد کیا تھا۔

ہندوستان ٹائمز نے یہ رپورٹ کیا تھا کہ بھارت کی وزارت امور خارجہ کے ترجمان انوراگ شری وستاوا نے کہا تھا کہ 'جموں اور کشمیر کی یونین ٹیرٹری بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ متعلقہ فریق بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے'۔

رپورٹ کے مطابق بھارت نے پاک چین اقتصادی راہداری پر اپنی مخالفت کا بھی اعادہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ بھارت نے 5 اگست 2019 کو اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا اور وہاں کرفیو جیسی پابندیاں اور اضافی فوج تعینات کردی تھیں۔

پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے معاملے کو سلامتی کونسل میں اٹھایا تھا، جس کے بعد سے دونوں ممالک کے پہلے سے ہی خراب تعلقات مزید کشیدگی کا شکار ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024