• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

گندم کی کوئی کمی نہیں، وفاقی حکومت کس کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے، صوبائی وزرا

شائع July 21, 2020
ناصر حسین شاہ نے کہا کہ وقت سے پہلے گندم جاری کرنے پر زور دیا جارہا ہے—فوٹو:ڈان
ناصر حسین شاہ نے کہا کہ وقت سے پہلے گندم جاری کرنے پر زور دیا جارہا ہے—فوٹو:ڈان

سندھ حکومت کے وزرا نے ملک میں گندم کی کمی کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا ہے صوبے میں گندم کا اسٹاک موجود ہے اور ساتھ ہی سوال اٹھایا کہ وفاقی حکومت گندم درآمد کرکے کس کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے؟

کراچی میں صوبائی حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کے ہمرا پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے کہا کہ اس وقت گندم کی کسی قسم کی کمی نہیں ہے، یہ خودساختہ کمی ہے، سب صوبوں اور پاسکو کے پاس گندم وافر مقدار میں موجود ہے۔

مزید پڑھیں:گندم کی کٹائی کے 2 ماہ بعد آٹے کی قیمتوں میں اضافے پر وفاقی وزیر حیران

سندھ حکومت کا محکمہ خوراک ہرسال ستمبر میں ملوں کو گندم جاری کرتا ہے تاکہ نرخ میں توازن رہے اور آٹا سستا ملے لیکن ہمیں اس وقت کہا جارہا ہے کہ گندم جاری کریں تاکہ جن لوگوں نے ذخیرہ اندوزی کی ہے، ان کو فائدہ دینا چاہ رہے ہیں یا کیا وجہ ہے کہ اس وقت گندم کے لیے اصرار کیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ دیگر صوبوں میں گندم دینا شروع کردیا گیا ہے لیکن یہاں طریقہ کار کے مطابق ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ آٹا اس وقت بھی ملک کے دیگر صوبوں سے یہاں کم قیمت پر دستیاب ہے اور کوئی قلت نہیں ہے۔

ناصر حسین شاہ نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے انتظامیہ کو ہدایات دی ہیں کہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن کریں اور جہاں ذخیرہ اندوزی کی گئی ہے، وہاں کارروائی کرکے ان پر جرمانہ بھی کیا جائے۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ جن لوگوں نے ذخیرہ اندوزی کی ہے ان کے لیے پیغام ہے یا خبردار کررہا ہوں کہ ان پر کریک ڈاؤن شروع کیا جارہا ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہمارے لوگوں کو آٹا مہنگا ملے۔

فلور ملز مالکان کو انہوں نے کہا کہ اپنا جو مناسب منافع، جو طے کیا گیا ہے، وہ ضرور رکھیں لیکن زیادہ منافع بھی نہ لیں اور ذخیرہ اندوزی بھی نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں فصل پہلے آتی ہے اور جب پنجاب سے درخواست آئی تھی تو وزیراعلیٰ نے اجازت دے دی تھی کیونکہ وہاں بھی ہمارے بہن بھائی رہتے ہیں، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان جہاں بھی ضرورت ہوگی ہم گندم دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت نے نجی شعبے کو گندم کی لامحدود درآمد کی اجازت دیدی

سندھ کے وزیر نے کہا کہ اب جو گندم جارہی ہے وہ اسمگل ہورہی ہے اور اطلاعات ہیں کہ بلوچستان یا کے پی کی طرف سے افغانستان جارہی ہے۔

ناصر حسین شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت سے درخواست ہے کہ اس پر نوٹس لیں اور وہاں پر انتظامات کریں تاکہ گندم اسمگل نہ ہو اور قیمت کم ہو، آٹا سستا ہو کیونکہ اس وقت بہت بڑا اسٹاک موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وفاقی حکومت نے ٹھان لی ہے کہ گندم درآمد کرنا ہے تو وہ ان کی مرضی ہے لیکن فیصلہ درست ہونا چاہیے کیونکہ آج سے 4 ،5 سال قبل یوکرین سے گندم درآمد کی گئی لیکن اس پر بڑا بحران پیدا ہوا، اس لیے وہ غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔

انہون نے وفاقی حکومت سے سوال کیا کہ کس کو فائدہ پہنچانا چاہ رہے ہیں اور وہ کون سے ذخیرہ اندوز ہیں، کون منافع خور ہیں جن کو وفاقی حکومت فائدہ دینا چاہ رہی ہے اور اسی وجہ سے وہ کہہ رہے ہیں صوبے ملوں کو گندم جاری کریں۔

ناصرحسین شاہ کا کہنا تھا کہ ہم آگاہ کررہے ہیں کہ گندم کا کوئی بحران نہیں ہے، وفاقی حکومت سنجیدہ ہو اور اس حوالے سے مہنگائی کی باتیں نہ کریں۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا مصنوعی بحران پیدا کیا جارہا ہے—فوٹو:ڈان
مرتضیٰ وہاب نے کہا مصنوعی بحران پیدا کیا جارہا ہے—فوٹو:ڈان

دوسری جاب مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں گندم کی کمی نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن یہ قلت مصنوعی طور پر پیدا کی جارہی ہے تاکہ جو گندم کو ذخیرہ کررہے ہیں وہ پیسہ کمائیں جس طرح پہلے چینی، آٹا اور ادوایات کے اسکینڈل میں کمایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے پاکستان میں گندم کی طلب کا جو ہدف رکھا تھا وہ 27.4 ملین میٹرک ٹن تھا جو پورے پاکستان میں سارے سال کے لیے تھا جبکہ پاکستان میں 26.1 ملین میٹرک ٹن پیداوار ہے۔

سندھ حکومت کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان میں 14 لاکھ میٹرک ٹن کی کمی ہے سال بھر کے لیے ہے اگر حکومت کی پختہ پالیسی ہو اور وژن ہو تو اس کمی کو آسانی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اس کمی سے نمٹنے کے بجائے صوبائی حکومتوں پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ گندم جاری کریں۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ پنجاب میں گندم جاری کی گئی ہے لیکن وہاں کہیں سرکاری گندم نظر نہیں آرہی ہے اس لیے منافع خور زیادہ کمانے کے لیے گندم سندھ سے باہر لے کر جارہے ہیں۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی حکومت ملک میں گندم کا مصنوعی بحران پیدا کررہی ہے، مرتضیٰ وہاب

خیال رہے کہ وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک فخر امام نے کٹائی کے سیزن کے فوری بعد گندم اور آٹے کی مہنگے داموں فروخت پر حیرت کا اظہار کیا تھا۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ کٹائی کے بعد صرف 2 ماہ قبل کاشت کاروں سے 60 لاکھ ٹن گندم خریدی گئی اور اب وہ ’مارکیٹ سے غائب‘ ہوگئی ہے، ’کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں گئی‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ عوام کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 15 لاکھ ٹن اضافی گندم درکار ہے، اس لیے 7 لاکھ ٹن گندم درآمد کی جارہی ہے جبکہ ہم نے 7 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

فخر امام کا مزید کہنا تھا کہ کسانوں نے گندم 14 سو روپے فی من فروخت کی اور اب گندم 18 سو اور 2 ہزار روپے فی من پر فروخت کی جارہی ہے۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے کہا کہ گندم کی بین الصوبائی نقل و حرکت پر پابندی غیر آئینی ہے اور اگر ضروری ہے تو ایوان کے سامنے اس کی جامع رپورٹ پیش کی جانی چاہیے۔

اس قیصر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ملک میں گندم وافر مقدار میں موجود تھی تو اب کہاں غائب ہوگئی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024