رواں برس بجٹ پر بحث میں 41 فیصد اراکین نے حصہ نہیں لیا، فافن
اسلام آباد: قومی اسمبلی کے 342 میں سے 141 اراکین (41 فیصد) نے 5 جون سے 30 جون تک جاری رہنے والے بجٹ اجلاس کے دوران فنانس بل 2020 پر بحث میں حصہ نہیں لیا۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے ایک رپورٹ میں کہا کہ ان میں سے اکثر قانون سازوں (75 ایم این ایز) کا تعلق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور ان کے اتحادیوں سے ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں سے وابستہ اراکین کی تعداد 65 ہے۔
بجٹ پر بحث میں حصہ نہ لینے والے اراکین میں سے 60 کا تعلق پی ٹی آئی، 36 کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ن)، 24 کا پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین (پی پی پی پی)، 5 کا پاکستان مسلم لیگ، 4 کا بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی)، 4 کا متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے)، 3 کا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)، 2 کا متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، ایک کا تعلق عوامی مسلم لیگ پارٹی (اے ایم ایل پی) اور ایک کا جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) سے ہے جبکہ ایک آزاد رکن شامل تھا۔
اجلاس 18 نشستوں پر مشتمل تھا جس کی پانچویں نشست میں فنانس بل پیش کیا گیا تھا جبکہ بجٹ کا عمل کُل 18 میں سے 14 نشستوں میں مکمل ہوا تھا۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باوجود بجٹ پر بحث میں 340 قانون سازوں میں سے 199 نے حصہ لیا جو 62 گھنٹے اور 42 منٹ (کارروائی کے 60 فیصد) پر مشتمل تھی جبکہ گزشتہ بجٹ اجلاس کے دوران 341 میں سے 230 اراکین (67 فیصد) نے بجٹ پر عام بحث میں حصہ لیا تھا جو 68 گھنٹے 44 منٹ (کارروائی کے 64 فیصد) تک جاری رہا تھا۔
بجٹ اجلاس (22ویں اجلاس) کے دوران مرد اور خواتین نے اپنے وقت کا بالترتیب 81 فیصد اور 19 فیصد حصہ استعمال کیا۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے 342 اراکین میں سے ایک نشست متحدہ مجلس عمل پاکستان (ایم ایم اے پی) کے رکن منیر خان اورکزئی کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوگئی ہے۔
جن 199 قانون سازوں نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیا ان میں 152 مرد اور 47 خواتین شامل تھیں ان میں سے 95 کا تعلق پی ٹی آئی، اس کے بعد 48 کا تعلق مسلم لیگ (ن)، 31 کا پی پی پی پی،11 کا ایم ایم اے پی، 5 کا ایم کیو ایم پی، 4 کا بی این پی مینگل، 3 آزاد اراکین جبکہ ایک کا تعلق بی اے پی اور دیگر ایک کا عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے ہے۔ پچھلے بجٹ اجلاس کے دوران 230 قانون سازوں نے حصہ لیا تھا جس میں 174 مرد اور 56 خواتین شامل تھیں ان میں سے 101 کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا، اس کے بعد 53 کا مسلم لیگ (ن)، 41 کا پی پی پی پی، 14 کا ایم ایم اے پی، 6 کا ایم کیو ایم پی، 5 کا بی اے پی، 4 کا بی این پی-مینگل، 2، 2 کا مسلم لیگ اور جی ڈی اے ، ایک کا تعلق اے این پی سے تھا اور ایک آزاد رکن تھے۔
مزید پڑھیں: 71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش، کوئی نیا ٹیکس نہ عائد کرنے کا اعلان
رواں برس بجٹ پر بحث کے لیے مختص کردہ وقت کا تقریباً 42 فیصد حصہ پی ٹی آئی کے قانون سازوں نے استعمال کیا، مسلم لیگ (ن) کے قانون سازوں نے 27 فیصد، پی پی پی پی نے 19 فیصد، ایم ایم اے پی نے 5 فیصد اور باقی 7 فیصد دیگر جماعتوں کے اراکین اسمبلی نے استعمال کیا۔
گزشتہ بجٹ اجلاس کے دوران بحث کے لیے مختص وقت کا تقریباً 35 فیصد پی ٹی آئی کے قانون سازوں نے، 28 فیصد مسلم لیگ (ن)، 24 فیصد پی پی پی پی، 6 فیصد ایم ایم اے پی اور دیگر جماعتوں کے اراکین اسمبلی نے 7 فیصد وقت استعمال کیا تھا۔ وزیر اعظم نے 18 میں سے 4 اجلاسوں میں شرکت کی جبکہ اپوزیشن لیڈر اجلاس کے آغاز سے قبل کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے باعث کسی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے۔
تاہم اس دوران پارلیمانی رہنماؤں کی موجودگی میں تھوڑا فرق دیکھنے میں آیا، بی اے پی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے 18 نشستوں میں شرکت کی، جس کے بعد پی پی پی پی کے 15، ایم ایم اے پی کے 12، بی این پی مینگل کے 5، جے ڈبلیو پی کے 3، مسلم لیگ کے 11، ایم کیو ایم اور اے این پی کے 2، 2 جبکہ اے ایم ایل پی کا کوئی لیڈر شریک نہیں تھا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس 5 جون سے 30 جون کے درمیان 18 نشستوں پر مشتمل تھا جو مجموعی طور پر 105 گھنٹے اور 4منٹ تک جاری رہا۔
مزید یہ کہ ہر اجلاس کے آغاز میں اوسطاً 41 (12 فیصد) قانون ساز موجود ہوتے تھے اور اجلاس ملتوی ہونے تک 52 (51 فیصد) اراکین موجود ہوتے تھے جبکہ 10 میں سے 5 اقلیتی قانون سازوں نے ہر اجلاس میں شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن نے بجٹ ’عوام دشمن‘ قرار دے کر مسترد کردیا
مکمل نشستوں کی سرکاری حاضری کے ریکارڈ کے مطابق اجلاس کے دوران اوسط حاضری 182 (53 فیصد) قانون ساز فی اجلاس رہی۔
سب سے زیادہ حاضری اجلاس کی 10ویں نشست میں ریکارڈ ہوئی جب 294 قانون ساز اجلاس میں شریک ہوئے تھے جبکہ 10ویں اجلاس میں سب سے کم حاضری ریکارڈ ہوئی تھی اور صرف 142 (42 فیصد) اراکین نے شرکت کی تھی۔
قائد ایوان نے تقریباً 5 فیصد کارروائی (5 گھنٹے اور 40 منٹ) میں شرکت کی اور 18 میں سے 4 اجلاسوں میں موجود رہے جبکہ قائد حزب اختلاف نے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے 14 اجلاسوں میں شرکت کی اور 27 فیصد سے زائد کارروائی (28 گھنٹوں اور 29 منٹس) کی سربراہی کی جبکہ ڈپٹی اسپیکر نے 17 اجلاسوں میں شرکت کی اور 34 فیصد کارروائیوں (35 گھنٹے اور 43 منٹس) کی سربراہی جبکہ اجلاس کا دیگر 3 فیصد وقت (3 گھنٹے اور 27 منٹس) وقفے یا کارروائیوں کی معطل میں صرف ہوا۔
یہ خبر 15 جولائی، 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی