• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

لاہور ہائی کورٹ: شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں 16 جولائی تک توسیع

شائع July 7, 2020 اپ ڈیٹ July 16, 2020
عدالت نے شہباز شریف کی حاضری سے معافی کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب کو انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا۔ فائل فوٹو:اے ایف پی
عدالت نے شہباز شریف کی حاضری سے معافی کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب کو انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا۔ فائل فوٹو:اے ایف پی

لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی عبوری درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) کو انہیں 16 جولائی تک گرفتار کرنے سے روک دیا۔

عدالت عالیہ میں جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے شہباز شریف کی عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ 'عدالتی حکم کے مطابق اور اپنی نیک نیتی ظاہر کرتے ہوئے شہباز شریف نے 2 جولائی کو نجی لیبارٹری سے اپنا ٹیسٹ کروایا تھا اور اللہ کے کرم سے شہباز شریف کے کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ منفی آئی ہے'۔

جسٹس سردار نعیم احمد نے استفسار کیا کہ جب شہباز شریف کا کورونا کا ٹیسٹ منفی آیا ہے تو وہ پیش کیوں نہیں ہوئے جس پر شہباز شریف کے موکل نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت اور پبلک ہیلتھ کمیشن کی ہدایات ہیں کہ 2 بار کورونا ٹیسٹ منفی آنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: شہباز شریف کو کورونا کا ٹیسٹ کروانے، رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ بزرگی کی عمر کو پہنچنے کے باعث شہباز شریف کورونا حملے کی وجہ سے تھکان محسوس کر رہے ہیں، انہیں اتفاق ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ٹیم کے زیر نگرانی ان کے گھر میں آئسولیٹ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 'شہباز شریف کی موجودہ طبی صورتحال کے باعث ان کا عوام میں جانا صحت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے'۔

جسٹس سردار نعیم احمد نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر بھی نیب والوں نے کہا تھا کہ ضمانت کی درخواست پر بحث مکمل کر لیتے ہیں جس پر شہباز شریف کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ 'اگر میرے پاس غیب کا علم ہوتا اور مجھے پتا ہوتا کہ عبوری ضمانت کنفرم ہو جائے گی تو بحث مکمل کر لیتے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'شہباز شریف ہائیکورٹ میں مچلکے جمع کروانے آئے تھے، درخواست گزار کی اس کوشش کو سراہا جانا چاہیے'۔

جسٹس سردار احمد نعیم نے استفسار کیا کہ گزشتہ سماعت پر بھی آپ نے کہا تھا کہ ایک بار حاضری معافی کی درخواست منظور کی جائے جس پر ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ 'یہ اس شخص کی ضمانت کی درخواست ہے جس کو کچھ طاقتیں گرفتار کروانا چاہتی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہائیکورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں عبوری ضمانت کی درخواستیں موصول ہوتی ہیں اور انہیں اس ہی بنیادوں پر ریلیف دیا جاتا ہے، شہباز شریف کی درخواست ضمانت 3 ہفتے تک ملتوی کرنے سے نیب کو کونسا ناقابل تلافی نقصان ہو گا'۔

جسٹس سردار احمد نعیم نے کہا کہ 'اب ملزم کا ٹیسٹ منفی آچکا ہے، پہلے آپ نے ٹیسٹ مثبت آنے پر ضمانت میں 3 ہفتے توسیع کی استدعا کی تھی، جس پر وکیل نے کہا کہ 'شہباز شریف نے دوران حراست اور احتساب عدالت میں پیشی کے دوران نیب حکام سے مکمل تعاون کیا'۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ شہباز شریف کی ذاتی حیثیت میں پیشی کو ایک بار کے لیے معاف کیا جائے اور ان کی عبوری ضمانت میں مزید 3 ہفتوں کی توسیع کی جائے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'ہم شہباز شریف کو بلا ہی نہیں رہے ہم تو آپ کو کہہ رہے ہیں دلائل مکمل کر لیں، آپ کی درخواستوں کی وجہ سے یہ فائل اتنی موٹی ہو گئی ہے'۔

وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت سے استدعا کی کہ 'درخواستگزار کو کم از کم 2 ہفتے کا ٹائم تو دے دیں، مجھے بڑی تسلی ہو گی کہ میرے موکل میرے ساتھ عدالت میں کھڑے ہوں اور میں دلائل دوں'۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کو کچھ ہوا تو ذمے دار عمران نیازی اور نیب ہوں گے، مسلم لیگ (ن)

بعد ازاں عدالت نے شہباز شریف کی حاضری سے معافی کی درخواست منظور کرتے ہوئے شہباز شریف کی منی لانڈرنگ کیس میں عبوری ضمانت 16 جولائی تک توسیع کر دی اور نیب کو شہباز شریف کو 16 جولائی تک گرفتار کرنے سے روک دیا۔

شہباز شریف کی وطن واپسی کے بعد تحقیقات کا احوال

یاد رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر مارچ کی 22 تاریخ کو لندن سے وطن واپس آئے تھے جس کے بعد نیب نے انہیں آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کے حوالے تحقیقات کے لیے متعدد مرتبہ طلب کیا۔

17 اور 22 اپریل کو شہباز شریف نے کورونا وائرس کے باعث صحت کو وجہ بناتے ہوئے پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ نیب نے انہیں طبی ہدایات کے مطابق تمام تر احتیاطی تدابیر اپنانے کی یقین دہانی کروائی تھی۔

بعدازاں شہباز شریف 4 مئی کو نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے جہاں ان سے ایک گھنٹہ 45 منٹ تک آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس سے متعلق سوالات کیے گئے تھے۔

نیب نے شہباز شریف کے جوابات کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے انہیں 2 جون کو دوبارہ طلب کیا تھا۔

شہباز شریف نے اپنے وکیل کے توسط سے مطلوبہ دستاویز قومی احتساب بیورو میں جمع کروادیے تھے تاہم نیب نے ان دستاویزات اور شواہد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے انہیں ذاتی طور پر سوالات کا جواب دینے کے لیے پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔

ان کے پیش نہ ہونے پر 2 جون کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم نے انہیں گرفتار کرنے کے لیے لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار تھا جہاں 2 سے ڈھائی گھنٹے گزارنے کے بعد اسے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔

چھاپے کے اگلے ہی روز شہباز شریف نے عبوری ضمانت کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا کہ جس پر عدالت نے نیب کو 17 جون تک شہباز شریف کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔

ضمانت ملنے کے بعد 9 جون کو شہباز شریف منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کے کیس میں نیب میں پیش ہوئے جہاں ان سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک تفتیش کی گئی۔

ان کی ضمانت کی مدت ختم ہونے سے ایک روز قبل نیب نے شہباز شریف کی ضمانت کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا تاہم 17 جون کو عبوری ضمانت میں توسیع کردی تھی جس میں بعد ازاں مزید توسیع بھی کی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024