اسلام آباد ہائیکورٹ نے تحقیقات کیخلاف آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی درخواست نمٹادی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایندھن کی قلت سے متعلق انکوائریوں کے خلاف آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) کی درخواست نمٹادی لیکن حکومت کو باور کرایا کہ وہ اپنے قانونی مینڈیٹ سے تجاوز نہ کرے۔
عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اٹک آئل کمپنیوں اور ایم/ ایس زوم (پرائیویٹ) لمیٹڈ کی درخواستوں کو اس مشاہدے کے ساتھ نمٹادیا کہ یہ ایگزیکٹو اتھارٹیز کے خصوصی دائرہ کار میں ہے کہ وہ بحران کے ذمہ دار عوامل اور افراد کی شناخت کرے۔
درخواستوں کے مطابق آئل مارکیٹنگ کمپنیاں وزارت توانائی (پاور ڈویژن) کے 8 جون، 2020 کے نوٹی فکیشن کے تحت تشکیل کردہ کمیٹی کی کارروائیوں سے متاثر ہوئی ہیں۔
ان درخواستوں میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ پاور ڈویژن نوٹی فکیشن کے اجرا کا اہل نہیں لہٰذا کارروائیاں کسی قانونی اتھارٹی اور دائرہ اختیار کے بغیر کی گئیں۔
مزید پڑھیں: پیٹرول کی قلت اور ذخیرہ اندوزی کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل
خیال رہے کہ قیمتوں میں کمی کے اعلان کے بعد ایندھن کی قلت کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ ایندھن کی قلت کا سب بننے والے عوامل خاص طور پر چاہے اس میں ذخیرہ اندوزی یا بلیک مارکیٹنگ نے کردار ادا کیا ہو ان کی انکوائری اور تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی کو مارکیٹنگ کمپنیوں کے اسٹاکس کی تصدیق کرنے کا بھی مینڈیٹ دیا گیا تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیٹی کو ایک خاص کام دیا گیا تھا جس میں بنیادی طور پر حقائق جمع کرنا اور اس کی بنیاد پر ان وجوہات کی نشاندہی کرنا تھا جو ایندھن کی قلت کا باعث بنیں اور ایسے افراد یا اداروں کی نشاندہی کرنا جو اس سلسلے میں ذمہ دار ہوسکتے ہیں۔ اس پر درخواست گزاروں کے وکیل نے پہلے یہ موقف اپنایا تھا کہ کیا کہ درخواست گزار کمپنیوں کی سرگرمیوں کو پاکستان آئل (ریفائننگ، ٹرانسپورٹیشن، اسٹوریج اینڈ مارکیٹنگ) رولز 2016 کے قانون کے تحت منظم کیا گیا تھا۔
وکیل نے کہا تھا کہ وزارت توانائی (پاور ڈویژن) نوٹی فکیشن جاری کرنے کی اہل نہیں ہے لہٰذا کارروائیاں بغیر کسی قانونی اختیار اور دائرہ کار کے تحت کی گئیں۔ عدالت نے کہا کہ یہ ایک تسلیم شدہ پوزیشن ہے کہ قیمتوں میں کمی سے متعلق اعلان کے بعد ملک بھر میں ایندھن/ پیٹرولیم مصنوعات کی اچانک شدید قلت پیدا ہوگئی تھی اور جو آج تک کچھ حصوں میں برقرار ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ صارفین خاص طور پر عوام شدید متاثر ہوئے اور آئین میں دیے گئے ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی۔
علاوہ ازیں عدالت نے کہا کہ اس تجویز پر کوئی اعتراض نہیں کہ ریاست کی ایگزیکٹو برانچ اس بحران کی ذمہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کو جوابدہ ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ ناگزیر تھا کہ ریاست کی ایگزیکٹو برانچ نے عوام کو طے شدہ کم قیمتوں پر ایندھن/ پیٹرولیم مصنوعات کی بلاتعطل سپلائی اور دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے مستقل مزاجی سے ردعمل دے۔
ساتھ ہی اسلام آباد ہائیکورٹ نے یہ بھی کہا کہ یہ ایگزیکٹو اتھارٹیز کے خصوصی دائرہ اختیار میں ہے کہ وہ بحران کے ذمہ دار عوامل اور افراد کی شناخت کریں۔
عدالتی حکم میں مزید کہا گیا کہ مہنگائی ہو یا عام لوگوں کو اشیائے ضروریہ کی دستیابی، یہ ریاست کی ایگزیکٹو برانچ کے خصوصی دائرہ کار میں آتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ریاست کی ایگزیکٹو برانچ پر عوام کو کم قیمتوں پر ایندھن کی بلاتعطل فراہمی کی خصوصی ذمہ داری عائد تھی، مارکیٹ سے اچانک ایندھن کا غائب ہونا اور گیس اسٹیشز پر صارفین کا قطاروں میں کھڑے ہونا واقعی ایگزیکٹو حکام کے لیے سنگین تشویش کی بات تھی۔ عدالت نے کہا کہ ہم بطور ججز عوام کے نمائندے نہیں نا ہی ان کاموں کے لیے جوابدہ ہیں جو ریاست کی ایگزیکٹو برانچ کے خصوصی دائرہ کار اور ڈومین میں آتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اوگرا نے پیٹرول کی فراہمی تعطل پر 6 آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو شوکاز نوٹس جاری کردیا
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایسے معاملات میں مداخلت صرف اسی صورت میں جائز ہوگی جب متاثرہ درخواست گزار آئینی طور پر دیے گئے حقوق کی خلاف ورزی کا مظاہرہ کرسکے۔
مزید برآں عدالت نے کہا کہ عوام کے مفادات بڑے پیمانے پر انفرادی حقوق یا مفادات پر حاوی ہوں گے۔
عدالتی حکم میں واضح کیا گیا کہ آئین کی اسکیم کے تحت تفویض کردہ فرائض کی انجام دہی کے لیے ایگزیکٹو، عوام کو جوابدہ ہے لہٰذا ، اسے غیر ضروری مداخلت سے پاک ہونا چاہیے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے درخواستیں نمٹادیں کہ چونکہ یہ حقائق تلاش کرنے والی تحقیقات ہیں اور حکومت نے ابھی تک او ایم سیز کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا لہٰذا عدالت اس مرحلے پر اس معاملے میں مداخلت نہیں کرسکتی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی نے وفاقی حکومت کے عہدیداروں کو بھی متنبہ کیا کہ انکوائری کے حوالے سے غیر ضروری بیانات نہ دیں۔
یہ خبر 27 جون، 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی