سینیٹ نے اپنے بجٹ میں کٹوتی کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کردیا
اسلام آباد: سینیٹ نے اپنے بجٹ میں 17 کروڑ روپے کی کٹوتی کو غیر آئینی اقدام قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر زور دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ نے وائس ووٹ کے ذریعے کمیٹی برائے خزانہ کی تجاویز پر فنانس بل میں ترمیم کی منظور کی اور حکومت پر کمیٹی کی جانب سے منظور کیے گئے اصل بجٹ کو بحال کرنے پر زور دیا۔
مذکورہ ترمیم سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین فاروق ایچ نائیک کی جانب سے پیش کی گئی تھی اور ایوان نے کمیٹی کی جانب سے تیار کردہ سفارشات کو شامل نہ کرنے پر منظور کرلی۔
مزید پڑھیں: بجٹ 21-2020: سبسڈی بل میں 40 فیصد تک کٹوتی
ایوان میں یہ مسئلہ سب سے پہلے متحدہ قومی موومنٹ کے بیرسٹر محمد علی سیف نے اٹھایا تھا، جنہوں نے کہا تھا کہ حکومت کے پاس سینیٹ کے بجٹ میں کمی کا دائرہ اختیار نہیں۔
پاکستان مسلم لیگ(ن ) کے سینیٹر جاوید عباسی نے اس اقدام کو پارلیمنٹ کی خلاف کوشش قرار دیا اور آئین کے آرٹیکل 81 کا حوالہ دیا جو فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ کے اخراجات سے متعلق ہے۔ ْ
انہوں نے کہا کہ اس آرٹیکل میں خاص طور پر انتظامی اخراجات کا ذکر ہے جس میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے عملے کے معاوضے بھی شامل ہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے آرٹیکل 88 کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ مجاز وقف شدہ رقم میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اخراجات قومی اسمبلی کی جانب سے کنٹرول کیے جائیں گے یا جو معاملہ ہو تو سینیٹ اپنی خزانہ کمیٹی کے مشورے پر عمل کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خزانہ کمیٹی آئینی کمیٹی بن جاتی ہے اور ایگزیکٹو کسی طریقے سے اس کے فیصلے کو مسترد نہیں کرسکتی۔
یہ بھی پڑھیں: پوسٹ بجٹ کانفرنس:’ہمیں اپنے خاندان کے کاروبار نہیں چلانے، عوام کو معیشت کا محور سمجھتے ہیں‘
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ سینیٹ بجٹ میں کٹوتی کا فیصلہ آئین کی مکمل خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے بعدازاں ایوان میں سالانہ بجٹ کے فنانس بل، 2020 پر تجاویز سے متعلق قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔
علاوہ ازیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین جاوید عباسی نے ایوان میں 2 آئینی ترمیمی بلز کی رپورٹ پیش کی۔
ایک بل میں قومی اور اسمبلیوں (آرٹیکل 51 اور 106) میں بلوچستان کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ اور دوسری میں حدود اور قصاص کے مقدمات میں سزائیں معاف کرنے سے متعلق صدارتی اختیار کا خاتمہ شامل ہے۔
حضرت محمدﷺ کے نام کے ساتھ خاتم النبیین لکھنے کی قرار داد منظور
علاوہ ازیں سینیٹ نے تعلیمی نصاب اور سرکاری دستاویزات میں حضرت محمدﷺ کے نام کے ساتھ خاتم النبین لکھنے کی قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی۔
چیئرمین سینیٹ نے سینیٹ سیکریٹریٹ کو قرارداد کی کاپی تمام وزرائے اعلیٰ، چیف سیکریٹریز اور اسپیکرز کو ارسال کرنے کی ہدایت کردی۔
اس سے قبل 22 جون کو قومی اسمبلی میں بھی حضرت محمد ﷺ کے نام کے ساتھ خاتم النبیین لکھنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: سندھ اسمبلی میں حضرت محمدﷺ کے نام کے ساتھ خاتم النبیین لکھنے کی قرار داد منظور
قومی اسمبلی کے اجلاس میں یہ قرارداد وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے پیش کی تھی اور تمام کی تمام پارلیمانی جماعتوں نے اس کی حمایت کی تھی۔
بعدازاں سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر مختلف ٹوئٹس میں علی محمد خان نے کہا تھا کہ قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قرار داد منظور کر لی کہ تمام سرکاری اسکولوں اور درسی کتابوں میں جہاں بھی نبی کریم ﷺکا نام آئے گا وہاں حضور اکرم خاتم النبیین محمد الرسول اللہ ﷺلکھا ،پڑھا اور پکارا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ میں نے قومی اسمبلی سےمتفقہ قرارداد پاس کروائی جس کی اپوزیشن اور اقلیت سب نے تائید کی کہ جہاں بھی حضرت محمد ﷺ کا اسم مبارک لکھا جائے توساتھ ہی خاتم النبیین بھی لکھا جائے۔
اس سے قبل 15 جون کو سندھ اسمبلی میں حضرت محمدﷺ کے نام کے ساتھ خاتم النبیین لکھنے اور پڑھے جانے کی قرار داد منظور کی گئی تھی۔
قرارداد متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم - پاکستان) کے رکن سندھ اسمبلی محمد حسین کی جانب سے پیش کی گئی تھی جس میںکہا گیا تھا کہ حضرت محمدﷺ آخری نبی ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ سندھ میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جہاں بھی حضرت محمدﷺ کا نام آئے تو اس کے ساتھ خاتم النبیین ضروری طور پر لکھا اور پڑھا جائے۔