• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بلاول کا طیارہ حادثے کی آزادانہ تحقیقات، وزیر ہوا بازی کے استعفے کا مطالبہ

شائع June 24, 2020 اپ ڈیٹ June 25, 2020
بلاول نے کہا کہ الزام تراشی اور قربانی کا بکرا بنانا بند کرو—فائل فوٹو: ڈان نیوز
بلاول نے کہا کہ الزام تراشی اور قربانی کا بکرا بنانا بند کرو—فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم عمران خان کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کراچی میں طیارہ حادثہ کیس کی آزادانہ تحقیقات اور وفاقی وزیر ہوا بازی کے استعفے کا مطالبہ کردیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 'اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان کہا کرتے تھے کہ اگر ریلوے میں کوئی حادثہ ہوا تو وزیر ریلوے کو، ہوائی جہاز کے حادثے میں وزیر ہوا بازی کو برخاست کردیا جائے گا'۔

مزید پڑھیں: کراچی طیارہ حادثہ: پائلٹ اور معاون کے ذہنوں پر کورونا سوار تھا، وزیر ہوا بازی

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 'اب وہ طیارہ حادثے کا ذمہ دار پائلٹ اور ایئر ٹریفک کنٹرول کو قرار دے رہے ہیں، اس لیے الزام تراشی اور قربانی کا بکرا بنانا بند کرو'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں اور وزیر ہوا بازی کو استعفیٰ دینا چاہیے'۔

واضح رہے بلاول بھٹو زرداری کا بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب قومی اسمبلی کے اجلاس میں کراچی طیارہ حادثے کی عبوری رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے مسافر طیارے کو پیش آنے والے حادثے کا ذمہ دار پائلٹ اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کو قرار دیا اور کہا تھا کہ دونوں نے مروجہ طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا۔

غلام سرور خان نے کہا تھا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق بدقسمت طیارہ پرواز کے لیے 100 فیصد ٹھیک تھا اس میں کسی قسم کی کوئی تکنیکی خرابی نہیں تھی۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پائلٹ اور معاون کے ذہنوں پر کورونا سوار تھا، ضرورت سے زیادہ اعتماد اور توجہ ہونے کے باعث ہمیں سانحے سے گزرنا پڑا۔

پی آئی اے طیارہ حادثے کی رپورٹ مسترد

دوسری جانب رکن قومی اسمبلی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ میں تمام ملبہ پائلٹ پر ڈال کر اصل معاملے اور حقائق کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ نااہل حکومت کی روایتی اور بدنیتی پر مبنی رپورٹ متاثرہ خاندانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ متنازع رپورٹ تیار کر کے نااہل وفاقی حکومت اعلیٰ افسران کو بچا کر پائلٹس کی ساکھ متاثر کرنا چاہتی ہے جو قابل مذمت ہے۔

مزید پڑھیں: طیارہ حادثے کے بعد اٹھنے والے سوالات اور ان کے جوابات

نفیسہ شاہ نے سوال اٹھایا کہ ذمہ دار اگر پائلٹ ہے تو پائلٹ کے امتحانات لینے اور لائسنس جاری کرنے والوں کو بری الذمہ کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ اور تحقیقاتی رپورٹ میں سول ایوی ایشن کے خلاف کارروائی کی کیا سفارشات کی گئی ہیں؟

انہوں نے کہا کہ ڈائریکٹر فلائٹ اسٹینڈرڈ کو جعلی دستاویز کی بنیاد پر سول ایوی ایشن سے نکالا گیا تھا اس لیے بتایا جائے کہ جعلی دستاویز کی بنیاد پر نکالے جانے والے شخص کو اسی سینیارٹی کے بنیاد پر دوبارہ تعینات کیسے کیا گیا۔

نفیسہ شاہ نے کہا کہ افسوسناک حادثے میں بچ جانے والے نوجوان کا بیان بڑا واضح ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف پائلٹ نہیں، وفاقی حکومت، وفاقی وزیر ہوا بازی، سول ایوی ایشن اور چیئرمین پی آئی اے واقعے کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔

کراچی طیارہ حادثہ

خیال رہے کہ 22 مئی کو کراچی ایئرپورٹ کے قریب ماڈل کالونی میں پی آئی اے کا طیارہ گر کر تباہ ہوگیا تھا جس میں 91 مسافر اور عملے کے 8 افراد سوار تھے جن میں سے 97 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 2 افراد محفوظ رہے۔

بعد ازاں اسی روز وفاقی حکومت نے طیارہ حادثہ کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی، ٹیم کی سربراہی ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ (اے اے آئی بی) کے صدر ایئر کموڈور محمد عثمان غنی نے کی۔

علاوہ ازیں پاکستان ایئرلائنز پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) نے بین الاقوامی اداروں اور اپنی شمولیت سے پی آئی اے طیارہ حادثے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: طیارہ حادثہ: وزیر ہوا بازی، پی آئی اے سربراہ کےخلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست

پالپا نے طیارے کی حالت سے متعلق تکنیکی تحقیقات کی تجویز بھی دی تھی اور کہا تھا کہ تفتیش کاروں کو گراؤنڈ اسٹاف اور عملے کے کام کرنے کے حالات پر لازمی غور کرنا چاہیے۔

بعد ازاں پی آئی اے کے انجینئرنگ اینڈ مینٹیننس ڈپارٹمنٹ نے حادثے کا شکار ہونے والے مسافر طیارے ایئربس اے-320 کے تکینکی معلومات سے متعلق سمری جاری کی تھی جس کے مطابق طیارے کو رواں سال 21 مارچ کو آخری مرتبہ چیک کیا گیا تھا اور تباہ ہونے والے طیارے نے حادثے سے ایک دن قبل اڑان بھری تھی اور مسقط میں پھنسے پاکستانیوں کو لاہور واپس لایا تھا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ طیارے کے انجن، لینڈنگ گیئر یا ایئر کرافٹ سسٹم میں کوئی خرابی نہیں تھی، دونوں انجنز کی حالت اطمینان بخش تھی اور وقفے سے قبل ان کی مینٹیننس چیک کی گئی تھی۔

علاوہ ازیں وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے طیارہ حادثے پر تمام متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انکوائری رپورٹ میں وزیر یا چیف ایگزیکٹو کی کوتاہی سامنے آئی تو خود کو احتساب کے لیے پیش کریں گے۔

ان کے علاوہ پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو افسر(سی ای او) ارشد ملک نے کہا تھا کہ مسافر طیارے کے حادثے میں مجھ سمیت جو بھی ذمہ دار ثابت ہوا اس کا احتساب ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں تباہ ہونے والے طیارے کا کاک پٹ وائس ریکارڈر مل گیا

تاہم حادثے کے دن ہی بدقسمت طیارے کا فلائٹ ڈیٹا ریکارڈ (ایف ڈی آر) مل گیا تھا اور 28 مئی کو طیارے کا کاک پٹ ڈیٹا ریکارڈر (سی وی آر) بھی مل گیا تھا۔

علاوہ ازیں 'پی کے 8303' کو پیش آئے حادثے سے متعلق تحقیقات کے لیے ایئربس کی جانب سے فرانسیسی ماہرین کی ٹیم بھی بھیجی گئی جو اپنا کام مکمل کرنے کے بعد یکم جون کوروانہ ہوگئی تھی۔

مزید برآں 30 مئی کو سندھ ہائی کورٹ نے حکام کو کراچی ایئرپورٹ کے قریب حادثے کا شکار ہونے والے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے طیارے کی تحقیقاتی رپورٹ 25 جون تک جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024