مالی سال 21-2020: آزاد جموں و کشمیر کے 139 ارب روپے کے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس شامل نہیں
مظفرآباد: مالی سال 21-2020 کے لیے آزاد جموں و کشمیر کے 139 ارب 50 کروڑ روپے کے بجٹ میں اخراجات کے لیے 115 ارب روپے اور ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے 24.5 ارب روپے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں وزیر خزانہ ڈاکٹر نجیب نقی نے بجٹ پیش کیا اور دعوی کیا کہ اس میں ‘حکومت کی ترجیحات اور لوگوں کی امنگوں کی عکاسی اور ان کی نمائندگی کی گئی ہے‘۔
گزشتہ سال کے برعکس جب اس سال ڈاکٹر نجیب نقی نے بجٹ تقریر کی تو اپوزیشن کی طرف سے احتجاج اور ہنگامہ آرائی نظر نہیں آئی اور اسمبلی اجلاس اپوزیشن کے چار میں سے دو اراکین کی جانب سے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرنے کی اجازت نہ ملنے پر واک آؤٹ کے بعد پر امن ماحول میں گزرا۔
مزید پڑھیں: بجٹ 2020: عوام کے لیے کیا اچھا رہا اور کیا بُرا؟
تاہم ان کے باقی دیگر ساتھیوں نے واک آؤٹ نہیں کیا اور بغیر کسی خلل کے پورے سیشن میں شرکت کی۔
واضح رہے کہ آزاد جموں و کشمیر کے 49 رکنی ایوان میں مشترکہ اپوزیشن کی کل 12 نشستیں ہیں۔
اجلاس کے دوران حکومتی بینچز پر وزیر اعظم راجا فاروق حیدر سمیت زیادہ سے زیادہ 23 ارکان پارلیمنٹ موجود تھے جبکہ اجلاس سے غائب ہونے والے نمایاں افراد میں سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق، اپوزیشن لیڈر چودھری محمد یاسین اور سابق وزیر اعظم چوہدری عبد المجید، سردار عتیق احمد خان اور بیرسٹر سلطان محمود شامل تھے۔
وزیر خزانہ نے ایوان کو بتایا کہ حکومت پاکستان نے اگلے مالی سال کے لیے آزاد جموں و کشمیر کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کے لیے 24 ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے ہیں جس میں 2 ارب 50 کروڑ روپے کی غیر ملکی امداد بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اضافی طور پر وفاقی حکومت نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی گولہ باری سے متاثرہ آبادی کی بحالی کے لیے اپنے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں 3 ارب 64 کروڑ روپے کی اسکیم شامل کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاق نے 2 ارب 92 کروڑ 40 لاکھ روپے بھی وزارت کشمیر امور اور اس کے آزاد جموں و کشمیر میں جاری منصوبوں کے لیے فراہم کیے ہیں۔
نجیب نقی نے بتایا کہ اے ڈی پی فنڈز کا 72 فیصد اگلے مالی سال میں 199 جاری منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لیے مختص کیا گیا ہے جبکہ باقی 28 فیصد 190 نئے منصوبوں کے لیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دفاعی بجٹ کیلئے 12 کھرب 90 ارب روپے کی تجویز
انہوں نے کہا کہ انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیکٹر کو 72 فیصد فنڈ ملیں گے جبکہ پیداواری اور سماجی شعبے بالترتیب 19 فیصد اور 9 فیصد وصول کریں گے۔
وزیر خزانہ نے محکمہ کے حساب سے مختص رقم کی تفصیلات دیتے ہوئے کہا کہ کمیونکیشنز اینڈ ورکس (سی اینڈ ڈبلیو) کے لیے 10 ارب 20 کروڑ روپے کی سب سے زیادہ مختص رقم کرنے کی تجویز کی گئی ہے اس کے بعد لوکل گورنمنٹ اور دیہی ترقی (ایل جی اینڈ آر ڈی) کے لیے 2 ارب 79 کروڑ 50 لاکھ روپے، تعلیم کے لیے 2 ارب 57 کروڑ 08 لاکھ روپے منصوبہ بندی اور ہاؤسنگ کے لیے 2 ارب 55 کروڑ روپے بجلی کے لیے ایک ارب 70 کروڑ روپے، غیر ملکی امداد سے بننے والے منصوبوں کے لیے ایک ارب 12 کروڑ 10 لاکھ روپے، صحت کے لیے ایک ارب روپے، صنعتوں/معدنیات کے لیے 52 کروڑ 80 لاکھ روپے، جنگلات کے لیے وائلڈ لائف اور فشنگ کے لیے 44 کروڑ روپے، زراعت اور مویشیوں کے لیے 38 کروڑ 20 لاکھ روپے، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے لیے 26 کروڑ 80 کروڑ روپے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لیے 23 کروڑ 50 لاکھ روپے، ترقیاتی اتھارٹیز کے لیے 24 کروڑ 50 لاکھ روپے، کھیل، نوجوانوں اور ثقافت کے لیے 22 کروڑ روپے، سیاحت کے لے 20 کروڑ روپے، سماجی بہبود اور خواتین کی ترقی کے لیے ایک کروڑ 50 لاکھ روپے، بحالی اور آبادکاری کے لیے 10 کروڑ روپے، شہری دفاع کے لے 9 کروڑ 50 لاکھ روپے، ماحولیات کے لیے 7 کروڑ روپے، انفارمیشن اینڈ میڈیا ڈیولپمنٹ کے لیے 3 کروڑ 70 لاکھ روپے اور ٹرانسپورٹ کے لیے 2 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو آئندہ مالی سال کے دوران مختلف شعبوں سے 119 ارب 61 کروڑ روپے کی آمدنی کی توقع ہے، جس میں سے 4 ارب 61 کروڑ روپے اوور ڈرافٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے استعمال ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ 20 ارب 60 کروڑ روپے انکم ٹیکس سے حاصل ہوں گے، دیگر صوبائی ٹیکسوں سے 7 ارب 90 کروڑ روپے، ایف بی آر ٹیکس کے بدلے وفاقی گرانٹ کے طور پر 70 ارب روپے، اندرونی وسائل، جیسے بجلی، جنگلات، اسٹامپ ڈیوٹی وغیرہ سے 19 ارب 90 کروڑ روپے وصول کیا جائے گا، پانی کے استعمال کے چارجز سے 70 کروڑ روپے اور قرض اور قبل از وقت ادائیگیوں سے 54 کروڑ روپے وصول ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ سب سے زیادہ 28 ارب 88 کروڑ روپے تعلیم کے شعبے کو دیے جائیں گے، اس کے بعد پینشن میں 22 ارب روپے، متفرق (گرانٹس) کے لیے 16 ارب 52 کروڑ 40 لاکھ روپے، صحت کے لیے 10 ارب 27 کروڑ 20 لاکھ روپے، بجلی کے لیے 8 ارب 76 کروڑ 20 لاکھ روپے، داخلہ (پولیس) کے لیے 6 ارب 56 کروڑ روپے، عام انتظامیہ کے لیے 5.ارب7 کروڑ 30 لاکھ روپے، سی اینڈ ڈبلیو کو 3 ارب 86 کروڑ 90 لاکھ روپے، ریاستی تجارت (گندم اور گندم کے آٹے پر سبسڈی) کے لیے 2 ارب 2 کروڑ 70 لاکھ روپے، عدالتی انتظامیہ کے لیے ایک ارب 78 کروڑ روپے، جنگلات کے لیے ایک ارب 18 کروڑ 40 لاکھ روپے، امداد اور بحالی کے لیے ایک ارب 5 کروڑ 30 لاکھ روپے، بورڈ آف ریونیو کے لیے ایک ارب 2 کروڑ 40 لاکھ، زراعت کے لیے 80 کروڑ 50 لاکھ روپے، جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے 73 کروڑ 40 لاکھ روپے، ایل جی اینڈ آر ڈی کے لیے 62 کروڑ 07 لاکھ روپے، سماجی بہبود اور خواتین کی ترقی کے لیے 53 کروڑ 28 لاکھ روپے، خوراک کے لیے 26 کروڑ 78لاکھ روپے، شہری دفاع کے لیے 22 کروڑ 90 لاکھ روپے، سیاحت کے لیے 18 کروڑ 94 لاکھ روپے، تعلقات عامہ کے لیے ایک کروڑ 70 لاکھ روپے، صنعتوں، مزدوری اور معدنی وسائل کے لیے 15 کروڑ 68 لاکھ روپے، مذہبی امور کے لیے 13 کروڑ 18 لاکھ روپے شامل ہے۔
جب کہ کوئی نیا لوکل ٹیکس تجویز نہیں کیا گیا وہیں وزیر خزانہ کی تقریر میں سرکاری ملازمین کی خدمت اور ریٹائرڈ ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں بھی کسی اضافے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
قبل ازیں نجیب نقی نے رواں سال کے نظر ثانی شدہ بجٹ کو منظوری کے لیے بھی پیش کیا تھا جس میں 121 ارب 56 کروڑ روپے سے 118 ارب 70 کروڑ روپے کی کمی ظاہر کی گئی۔