• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

لاہور ہائیکورٹ: شہباز شریف کی ضمانت میں 29 جون تک مزید توسیع

نیب نے غیر قانونی اثاثہ جات کیس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کرنے کی درخواست کی تھی۔ اے ایف پی:فائل فوٹو
نیب نے غیر قانونی اثاثہ جات کیس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کرنے کی درخواست کی تھی۔ اے ایف پی:فائل فوٹو

لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی عبوری ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) کو انہیں 17 جون تک گرفتار کرنے سے روک دیا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل 3 جون کو شہباز شریف کی عبوری ضمانت کے لیے درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نیب کو 17 جون تک انہیں گرفتار کرنے سے روکا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے شہباز شریف کی درخواست پر سماعت کی۔

عدالت میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی جانب سے حاضری سے معافی کی درخواست دائر کی گئی۔

شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف میں کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد ڈاکٹرز نے انہیں 25 جون تک قرنطینہ میں رہنے کا کہا ہے۔

مزید پڑھیں: لاہور: نیب ٹیم کا شہباز شریف کی گرفتاری کیلئے رہائش گاہ پر چھاپہ

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے مچلکوں پر دستخط کے لیے آنا تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے نہیں آ سکے، اگر عدالتی نمائندہ دستخط کرالے تو یہ بھی ممکن ہے‘۔

عدالت میں نیب کے وکیل نے کہا کہ شہباز شریف کی ہمیں عدم پیشی پر کوئی اعتراض نہیں۔

جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ ’9 جون کو شہباز شریف نیب چلے گئے تو ہائیکورٹ بھی آجاتے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’عدالتی اہلکار کی زندگی خطرے میں نہیں ڈال سکتے‘۔

بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کی ضمانت میں 29 جون تک توسیع کرتے ہوئے نیب کو انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا۔

عدالت نے ہدایت دی کہ شہباز شریف مچلکے پر بھی اسی دن دستخط کر دیں۔

درخواست ضمانت چیلنج

واضح رہے کہ گزشتہ روز قومی احتساب بیورو نے لاہور ہائی کورٹ سے غیر قانونی اثاثہ جات کیس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کرنے کی درخواست کی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیب کا کہنا تھا کہ درخواست گزار شہباز شریف اپنے اہلخانہ اور بے نام داروں کے اثاثوں کے بینفشری ہیں جن کے اثاثے حاصل کرنے کے کوئی ذرائع نہیں ہیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ درخواست گزار کے اہلخانہ اور بےنامی داروں نے بیرون ملک سے ایک ارب 21 کروڑ 80 لاکھ روپے اپنے بینک اکاؤنٹس میں حاصل کیے جس کے علاوہ 37 کروڑ 56 لاکھ 95 ہزار روپے غیر ملکی پے آرڈرز کے ذریعے لانڈرنگ کرتے ہوئے ملزم کے صاحبزادے سلمان شہباز کے اکاؤنٹ میں جمع کرائے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے نیب کو 17 جون تک شہباز شریف کو گرفتار کرنے سے روک دیا

نیب کے جواب میں الزام عائد کیا گیا کہ درخواست گزار اور ان کے اہلخانہ نے شریک ملزمان (ایوسی ایٹس/ملازمین) بنام ہارون یوسف عزیز، علی احمد خان، سید محمد طاہر نقوی اور محمد عثمان کو غائب کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شریک ملزمان درخواست گزار کے صاحبزادے حمزہ شہباز، نثار احمد، قاسم قیوم، راشد کرامت، مصرور انور، فضل داد عباسی، شعیب قمر، محمد مشتاق، شاہد رفیق اور آفتاب محمود کو انتھک کوششوں کے بعد گرفتار کرلیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کے اہلخانہ میں کوئی بھی بیرون ملک سے آنے والی رقم کے ذرائع، رقم بھیجنے والوں کے ساتھ تعلق یا اس کو پہچاننے سے بھی انکار کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’نام نہاد کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے والے/ رقم بھیجنے والوں نے شہباز شریف کے اہلخانہ کو غیر ملکی رقم کی ترسیل کرنے سے انکار کردیا ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ درخواست گزار اور اس کے شریک ملزمان منی لانڈرنگ میں ملوث تھے‘۔

نیب کا کہنا تھا کہ درخواست گزار اور ان کے اہلخانہ ان فنڈز کے ذرائع ثابت کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں جس سے اثاثے خریدے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار خود بھی تفتیش کاروں سے تعاون میں ناکام رہا ہے کیونکہ اس نے اب تک لندن میں خریدی گئی 4 جائیدادوں کے لیے رقم حاصل کرنے کے بارے میں، کاروبار سے آمدنی اور زراعت سے آمدنی اور بے نامی کمپنیوں کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔

نیب نے مؤقف اپنایا کہ شہباز شریف کی کسٹڈی حاصل کرنا نیب آرڈیننس (1999) اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2019 کے تحت نیب کے اختیار میں ہے۔

مزید پڑھیں: نیب نے شہباز شریف کو چولستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کیس میں شامل تفتیش کرلیا

انہوں نے مزید الزام عائد کیا کہ درخواست گزار تفتیش کے عمل میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں اور بیرون ملک بھاگنا چاہتے ہیں جیسا کہ ان کے بیٹے سلیمان شہباز کو مسلسل پیش نہ ہونے پر اشتہاری ملزم قرار دیا جاچکا ہے۔

شہباز شریف کی گرفتاری کے لیے چھاپہ

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ شہباز شریف کی گرفتاری کے لیے لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں قائم ان کی رہائش گاہ پہنچنے والی قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم وہاں سے واپس روانہ ہوگئی تھی۔

نیب نے آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کے کیس میں تفتیش کے لیے طلب کیا تھا تاہم وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد نیب کی ٹیم پولیس کے ہمراہ ان کے گھر پہنچ گئی تھی۔

قومی احتساب بیورو کی ٹیم شہباز شریف کے گھر میں ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک موجود رہی جس کے بعد وہ شہباز شریف کی گھر میں عدم موجودگی کے باعث واپس روانہ ہوگئی تھی۔

یاد رہے کہ شہباز شریف 4 مئی کو نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے جہاں ان سے ایک گھنٹہ 45 منٹ تک آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس سے متعلق سوالات کیے گئے تھے۔

نیب نے شہباز شریف کے جوابات کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے انہیں 2 جون کو دوبارہ طلب کرلیا تھا۔

لاہور میں شہباز شریف کی نیب میں پیشی کے حوالے سے معلومات رکھنے والے ذرائع نے بتایا تھا کہ پیشی کے دوران شہباز شریف نے ایک بار پھر نیب ٹیم کے سوالوں کے مناسب جواب نہیں دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف احتساب ادارے کے پاس موجود اپنے اثاثوں کی تفصیلات دیکھ کر حیران رہ گئے جبکہ منی لانڈرنگ سے متعلق سوالوں کے جواب دینے سے قاصر رہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ نیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے شہباز شریف سے ایک گھنٹہ 45 منٹ تک سوالات کیے تاہم وہ نیب کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔

یاد رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر مارچ میں لندن سے وطن واپس آئے تھے جس کے بعد سے نیب نے متعدد مرتبہ طلب کرلیا تھا۔

قبل ازیں 17 اور 22 اپریل کو شہباز شریف نے کورونا وائرس کے باعث صحت کو وجہ بناتے ہوئے پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ نیب نے انہیں طبی ہدایات کے مطابق تمام تر احتیاطی تدابیر اپنانے کی یقین دہانی کروائی تھی۔

شہباز شریف نے اپنے وکیل کے توسط سے مطلوبہ دستاویز قومی احتساب بیورو میں جمع کروادیے تھے تاہم نیب نے ان دستاویزات اور شواہد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے انہیں ذاتی طور پر سوالات کا جواب دینے کے لیے پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024