سندھ پاور گیم سے آؤٹ؟
صدارتی انتخاب نے سندھ کی سیاسی فضا میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ سیاسی طور پر تنہائی اور شدید دباؤ کا شکار ایم کیو ایم نواز لیگ سے قربت لے کر سیاسی دھارے میں آگئی ہے مگر نواز لیگ سندھ میں سیاسی تنہائی کا شکارہو گئی۔ ایک بار پھر مہاجر اور پنجاب کا روایتی اتحاد قائم ہوگیا ہے۔ اس نئی قربت سے سندھ میں سیاست کوکئی عشرے پیچھے دھکیل دیا ہے۔
اگرچہ پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ کے بعد نواز لیگ کے امیدوار ممنون حسین کی کامیابی میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔مگر پھر بھی نواز لیگ کے رہنما ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائین زیرو پہنچے۔ ایم کیو ایم کے بارے میں ان کا موقف یکسر بدل گیا۔ میاں نواز شریف کے وہ دعوے اوریقین دہانیاں دھری کے دھری رہ گئیں۔ انہوں نے متحدہ سے سیاسی مخالفت کا آغاز لندن کانفرنس سے شروع ہوا تھا، جہاں ان کی دعوت پر جمع ہونے والی پارٹیوں نے فیصلہ کیا تھا کہ اب کوئی بھی پارٹی ایم کیوایم کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔ یہ توکوئی ایک عشرہ پہلے کی بات تھی۔ انتخابات کے موقعہ پرمیاں صاحب کے بیانات ریکارڈ پر ہیں جن میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان میں دہشتگردی ایم کیو ایم کی وجہ سے آئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ ایم کیو ایم سے اتحاد نہیں کریں گے۔ لیکن اب نواز لیگ کے مرکزی رہنما کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کو اکموڈیٹ کرنا اور سیاسی دھارے میں لانا ضروری ہے۔ سندھ کے کارکن اور رہنما ؤں کو شدید اعتراضات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم عوام میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔
سندھ میں نواز لیگ کے ناراض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ سندھ میں کسی سے اتحاد کامعاملہ تھا لہٰذا ان کو مذاکرات میں شامل کرنا چاہئے تھا۔ مگر ان سے تو مشاورت بھی نہیں کی گئی۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے پارٹی رہنماؤں غوث علی شاہ، ممتاز بھٹو، لیاقت جتوئی، اسماعیل راہو یا کراچی سے تعلق رکنے والے شفیع محمد جاموٹ اور عبدالحکیم بلوچ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ یوں نواز شریف نے اپنی پرپارٹی کے سندھ کے رہنماؤں پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔ حکیم بلوچ اور شفیع محمد جاموٹ جو کہ پیپلز پارٹی کی ایم کیو ایم کے بارے میں پالیسی سے تنگ آکر نواز لیگ میں شامل ہوئے تھے، انہیں بھی بڑی دقّت کا سامنا ہے۔
پرانے مسلم لیگی غوث علی شاہ صدارت کے مضبوط امیدوار ہو سکتے تھے۔ وہ مشرف کا پورا دور خود ساختہ جلاوطنی میں رہے۔ مبصرین کا خیال تھا کہ نواز شریف حکومت کے بعد صدارت کا عہدہ سندھ کے حصے میں آئے گا تو شاہ صاحب کو یہ عہدہ دیا جائے گا۔ یہی صورتحال ممتاز بھٹو کی تھی جنہوں نے سالہا سال کی قوم پرست سیاست کو خیرباد کہہ کر اپنی پارٹی سندھ نیشنل فرنٹ کو نواز لیگ میں ضم کیا تھا۔ سیاسی حلقوں میں یہ باتیں کی جارہی تھیں کہ انہیں صدارت کا عہدہ دیا جائے گا۔ مگر ان دونوں رہنماؤں کو نظرانداز کیا گیا۔ بعد میں سندھ کے گورنر شپ کے عہدے کا آسرا دیا گیا۔ مگر اب خیال کیا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم سے نواز لیگ کی دوستی کے بعد یہ عہدہ بھی انہیں نہیں مل سکے گا۔ سندھ کے حصے میں صدارت کا عہدہ تو نہیں آیا مگر گورنری بھی مسلم لیگ کی سندھی قیادت کے ہاتھوں سے نکل گئی۔ نواز شریف کو صدر کے عہدے کے لیے کسی ’’وفادار‘‘ کی تلاش تھی۔ انہیں سندھ کے پرانے باشندوں پر یقین نہیں آیا۔
نواز لیگ نے ایم کیو ایم سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے پہلے اپنی اتحادی جماعت فنکشنل لیگ سے بھی نہیں پوچھا۔ خبروں کے مطابق اسی بناء پر پیر پگارا کے نواز لیگ کے رہنماؤں سے ملنے سے انکار کردیا۔ لیکن معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پیر پگارا ایم کیو ایم کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے آگاہ تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ پیر پگارا کو سندھ میں آئندہ تبدیلی کے حوالے سے ایک اہم ٹاسک بھی دیا جا رہا ہے۔
سندھ کے قوم پرست اور عام لوگ بھی اس قربت پرناخوش ہیں۔ کیونکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف جو تحریک چلی تھی اس کی وجہ ایم کیو ایم ہی تھی۔ تب نواز لیگ کو پیپلز پارٹی کے متبادل کے طور پر کو پیش کیا جا رہا تھا۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں نواز شریف نے یہ تاثر دیا کہ وہ سندھ اور پنجاب کا سیاسی اتحاد جو بھٹو نے قائم کیا تھا وہ زندہ کرنے جارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قوم پرستوں سے بھی پینگیں بڑھائیں۔ تو قوم پرست انہیں سندھ کا ہمدرد قرار دینے لگے۔ یہاں تک کہ سندھی ادیبوں کا بھی ایک بریگیڈ سامنے میں آگیا جس نے پیپلز پارٹی کے خلاف اور نواز شریف کے حق میں ایک ہائیپ پیدا کردی تھی۔
نواز شریف نے قوم پرستوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ انہیں آسرا دیا کہ وہ اگر سندھ سے پیپلز پارٹی کے پاؤں نکالنے میں مدد کریں گے تو ان کو اقتدار میں شامل کیا جائے گا۔ سندھ کی قوم پرست سیاست جو وفاق پرست اور پارلیمانی سیاست سے دور کھڑی تھی۔ ایک مرتبہ اس کے قریب آگئی۔ قوم پرستوں کو الیکشن میں تو کچھ نہیں ملا مگر ان کے اتحادی نواز شریف کے حالیہ اقدام سے ان کی رہی سہی سیاست بھی خطرے میں پڑ گئی۔
اس پورے قصے میں نواز شریف کو فائدہ پہنچا مگر قوم پرست گھاٹے میں رہے۔ وہ سندھ میں ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکے۔ ابھی وہ اپنی حکمت عملی کی ناکامی کے زخم چاٹ رہے تھے کہ نواز لیگ نے ایم کیو ایم سے قربت کرلی۔ جس کے بعدیہ قوم پرستوں کے لیے دوسرا بڑا جھٹکا تھا۔ جلال محمود شاہ اس کو نواز لیگ کی سب سے بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف اس اقدام سے سندھ میں حمایت اور ہمدردی کھو بیٹھیں گے۔ عوامی تحریک کے ایاز لطیف پلیجو کا کہنا ہے کہ سندھیوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔
سندھ میں نواز لیگ چند افراد پر مشتمل ہے۔ اس کابطور پارٹی وجود نہیں تھی۔ یہ ان کی حکمت عملی تھی کہ وہ سندھ میں پارٹی منظم نہ کریں کیونکہ وہ سندھ میں براہ راست اسٹیک ہولڈر بننا نہیں چاہتے تھے۔ وہ اگر ایسا کرتے تو پارٹی کی پالیسیاں بھی ایسی بنانی پڑتی جو سندھ کے مفادات سے مطابقت رکھتیں۔ نواز شریف گزشتہ تین سال کے دوران پارٹی کی تنظیم سازی کے بجائے اتحادی تلاش کیے جو پیپلز پارٹی کے خلاف ماحول بنا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ الیکٹ ایبل ڈھونڈتے رہے جو حکومت سازی میں ان کو ووٹ دے سکیں۔
نواز لیگ کے اس اقدام پرسندھ میں سخت ناراضگی پائی جاتی ہے۔ نئی قربت میں ایم کیو ایم کو ہوگا۔ ویسے بھی ایم کیو ایم ہمیشہ پی پی کے بجائے نواز لیگ کے ساتھ اتحاد میں سہولت محسوس کرتی ہے۔ کیونکہ سندھ میں اس کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے اس کا مکمل طور پر انحصار ایم کیو ایم پر ہوگا۔ نواز لیگ کو صدارتی امیدوار کے لیے سندھ سے ووٹ ملے، لیکن یہ ووٹ ایم کیوایم کے تھے۔ جبکہ سندھ کی ایک بڑی آبادی کی صدر کو حمایت حاصل نہیں۔
غالب امکان ہے کہ نواز لیگ گورنرکا عہدہ ایم کیو ایم کو ہی دے گی۔ ایسا کرکے وہ پیپلز پارٹی پر چیک رکھ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان دو پارٹیوں کا اتحاد سندھ میں آئندہ سیاسی تبدیلی کے لیے بھی کام آسکتا ہے۔ جس کو سیاسی حلقے نواز لیگ کی مستقبل کی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔ اب سندھ کے پاس وفاق میں کوئی آئینی عہدہ نہیں رہا۔ یوں صدر کا عہدہ اب چاہے غیر اہم ہی صحیح مگر اس کے انتخاب نے سندھ کو پاور گیم سے آؤٹ کردیا ہے۔
تبصرے (13) بند ہیں