• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

سندھ کو اسلام آباد کی کالونی نہ سمجھیں، مراد علی شاہ

شائع June 10, 2020
—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کے اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد جانے سے روکنے پر تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ سندھ کو اسلام آباد کی کالونی نہ سمجھیں۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 'نیشنل اکنامک کونسل ایک آئینی ادارہ ہے اور سال میں دو بار اس کے اجلاس کا آئین میں لکھا ہوا ہے'۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ 'میں اسلام آباد جاکر اجلاس میں شریک ہونا چاہتا تھا کیونکہ 55،50 افراد کا اجلاس ہوسکتا ہے تو 13 لوگوں کا اجلاس کیوں نہیں ہوسکتا لیکن مجھے واضح طور پر پیغام دیا گیا کہ آپ اسلام آباد نہ آئیں اور اگر آگئے تو ویڈیو لنک میں لیں گے اور اجلاس میں آنے نہیں دیں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے وزیر اعظم سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ میری اس طرح کی ہدایات نہیں تھیں، جو لوگ وزیراعظم کو گائیڈ کرتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ آئینی اجلاس میں ایسا نہیں کرسکتے ۔

یہ بھی پڑھیں:کورونا کے پھیلاؤ کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے، سندھ حکومت

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس اجلاس میں صوبائی وزرائے اعلیٰ کو کہا گیا کہ وہ ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کریں لیکن کابینہ کے اجلاس میں 50 لوگ ہوتے ہیں حالانکہ 13 لوگ ایک کمرے میں بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ آئینی اجلاس سال میں دو دفعہ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے میری بات سنی اور کہا کہ آپ آسکتے ہیں لیکن اس وقت دیر ہوچکی تھی۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ اجلاس کے ایجنڈے میں 7 چیزیں شامل تھیں، این ای سی کا یہ اجلاس فروری میں ہونا چاہیے تھا اور اس کو مذاق نہیں بنانا چاہیے، وزیراعظم مان گئے کہ سال میں دو اجلاس ہوں گے اور انہیں جلدی بلانے پر اتفاق کیا۔

قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سالانہ منصوبے میں معیشت کی بہتری کا بتایا جاتا ہے، زراعت اور صنعت اور دیگر شعبے کس رفتار سے آگے بڑھیں گے اس لیے وفاق اور صوبے اپنے خرچے اسی حساب سے کریں اور بجٹ بنائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایجنڈا نمبر ایک آیا تو ہمیں بتایا گیا کہ 20-2019 کا ہدف 4 فیصد تھا اور بقیہ سال میں منفی صفر چار فیصد ہوگا اور 19-2018 کی گروتھ 3.3 فیصد ہے لیکن ڈیڑھ دو مہینے پہلے بتایا گیا کہ 2018 کی گروتھ اصل 1.9 فیصد تھی حالانکہ اتنا بڑا فرق پہلے کبھی نہیں آیا حالانکہ تخمینوں میں کمی یا زیادتی ہوتی ہے لیکن اتنا بڑا فرق نہیں ہوتا جس کی نشان دہی کی۔۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ان غلط تخمینوں سے نقصان وفاق اور صوبوں کو ہوتا ہے کیونکہ اسی بنیاد پر بجٹ بنائے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی گروتھ منفی 2.6 فیصد ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں:صوبے میں لاک ڈاؤن سے متعلق فیصلہ وفاق کی مشاورت سے ہوگا، ترجمان حکومت سندھ

قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 19-2018 میں ٹیکس کم جمع ہوا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ دوسری دفعہ ایسا ہوگا اور ہم لوگوں کی توقعات کیسے پورے کریں گے۔

وزہراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ اب کووڈ بہانہ مل گیا اور ہر الزام کووڈ پر ڈالا جائے گا لیکن مارچ تک تو کووڈ نہیں تھااس وقت بھی ٹیکس محصولات سست تھیں۔

انہوں نے کہا کہ میں وزیراعظم کو بتایا کہ آپ کی ٹیکس محصولات پچھلے سال بھی کم تھیں اور اس دفعہ بھی کم ہیں۔

ترقیاتی منصوبوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ایک دستاویز آئی تھیں جس میں نثار کھوڑو نے اعتراضات اٹھائے تھے تاہم آج نئی دستاویزات آئیں جس میں مزید اسکیمیں شامل کی گئیں لیکن چند ایسی غلطیاں ہیں جو حیران کن ہیں، سمجھ نہیں آتا کہ یہ بناتا کون ہے اورمسئلہ کہاں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر صوبے کو پیسے دیے جاتے ہیں جہاں اس صوبے یا وفاق دونوں کے ادارے کام کرتے ہیں لیکن سندھ کے ساتھ الگ ایک چیز کی گئی۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ 'سندھ کے ساتھ الگ سے کابینہ ڈویژن میں 2 اسلام آباد اور 20 سندھ کے منصوبے ہیں جس پر خوشی ہے اور شکریہ ادا کیا لیکن میں نے کہا کہ سندھ کو اسلام آباد نہ سمجھیں، سندھ کے کام واپڈا، پی ڈبلیو ڈی سے کروائیں اور مزید اسکیمیں شامل کریں مجھے خوشی ہوگی'۔

انہوں نے کہا کہ 'سندھ کے لیے ایک کمپنی ایس آئی ڈی سی ایل بنائی گئی جبکہ نہ تو پی آئی ڈی سی ایل ہے اور نہ کے پی آئی ڈی ایل ہے لیکن میں نے کہا کہ سندھ کو کالونی نہ سمجھیں اور وہاں سے بیٹھ کر چلانے کی کوشش نہ کریں'۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا کہ کام صحیح نہیں چل رہا ہے تو آپ نیب چلے جائیں شاید ہم ایسا کریں اورنیب جائیں جبکہ نیب خود بھی نوٹس لے سکتا کیونکہ ہماری تو ہر بات کا نوٹس لیا جاتا ہے۔

گرین لائن منصوبے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ گرین لائن پر خرچ کے حوالے سے انہوں پچھلے سال کہا تھا کہ اس پر 24.6 ارب میں سے 21.16 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں اور اب لکھا ہوا آرہا ہے کہ 30 جون 2020 تک 19.5 ارب روپے خرچ کیے یعنی پچھلے سال جو بتائے تھے اس سے 1.6 ارب روپے کم خرچ کیے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ گرین لائن منصوبہ پچھلی وفاقی حکومت کا منصوبہ تھا اور کراچی میں منصوبوں کے لیے کے آئی سی ڈی ایل کمپنی بنائی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024