’کورونا سے نمٹنے کیلئے نریندر مودی کی حکمت عملی بری طرح ناکام‘
امریکی اخبار نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ کی گئی حکمت عملی بری طرح ناکام ہونے اور غریب افراد کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا انکشاف کیا ہے۔
2 روز قبل بھارت میں ایک روز میں زیادہ کورونا کیسز سامنے آئے اور یہ ایران کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کے 10 بدترین متاثر ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا تھا۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بھارت میں 2ماہ سے لاکھ ڈاؤن نافذ ہے، لاک ڈاؤن کے پہلے روز 25 مارچ کو بھارت میں کورونا وائرس کے 618 مصدقہ کیسز اور 13 اموات تھیں۔
چونکہ بھارت اب لاک ڈاؤن میں نرمی کررہا ہے تو وہاں کورونا وائرس کے ایک لاکھ 51 ہزار کیسز اور 4 ہزار 300 سے زائد اموات ہوچکی ہیں جو امریکا اور مختلف یورپی ممالک میں ہونے والی اموات کے مقابلے میں کم تعداد ہے جہاں کی آبادی بھی اس سے کافی کم ہے۔
64 روز میں 100 سے ایک لاکھ کیسز
امریکا میں 25 روز جبکہ برطانیہ میں 42 روز میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد 100 سے ایک لاکھ تک پہنچی تھی جبکہ بھارت جہاں طویل اور سخت ترین لاک ڈاؤن نافذ تھا وہاں کیسز کی تعداد 64 دن میں ایک لاکھ ہوئی۔
اس سے بھارتی حکومت کی حکمت عملی کی کامیابی کا عندیہ مل سکتا ہے لیکن بنگلہ دیش اور پاکستان میں وائرس کے پھیلاؤ کی ایسی رفتار اور شرح اموات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیگر عوامل نے بھی قابل ذکر کردار ادا کیا ہوگا۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس کی وبا: بھارت میں 21 روز کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
رپورٹ میں کہا گیا کہ کورونا وائرس کے 25 ہزار سے زائد کیسز والے 30 ممالک میں سے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں فی 10 لاکھ افراد میں ٹیسٹنگ کی شرح انتہائی کم ہے جس سے یہ سوال اٹھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں عالمی وبا کے پھیلاؤ میں سست روی کے رجحان سے متعلق اعداد و شمار کیا صرف ٹیسٹنگ کی کمی کا نتیجہ ہیں۔
تاہم جنوبی ایشیا میں شرح اموات میں کمی حقیقی معلوم ہوتی ہے کیونکہ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر اموات رپورٹ نہ ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
جنوبی ایشیا میں شرح اموات میں کمی
ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں شرح اموات میں کمی کا اہم عنصر آبادی کا تناسب ہے، بھارت میں اوسط عمر 29 سال، پاکستان میں 23 سال اور بنگلہ دیش میں 27 سال ہے جبکہ امریکا میں اوسط عمر 38، برطانیہ میں 40.5 اور اٹلی میں 45 ہے۔
نیویارک شہر کے اعداد و شمار سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس سے 73 فیصد اموات ان مریضوں کی ہوئیں جن کی عمر 65 برس یا اس سے زائد تھی اور امریکا کے 16 فیصد کے مقابلے میں بھارت کی صرف 5 فیصد آبادی اس ایج گروپ میں آتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں کورونا کیسز میں ریکارڈ اضافہ، دنیا کے 10 بدترین متاثرہ ممالک میں شامل
علاوہ ازیں یورپ اور امریکا کے مقابلے میں ہسپتالوں میں مریضوں کے داخل ہونے اور اموات کی شرح بھی کم ہے۔
برطانیہ اور اٹلی میں کورونا وائرس کے مریضوں کی اموات کی شرح 14.4 فیصد اور 14 فیصد ہے جبکہ بھارت میں یہ شرح 3.3 اور پاکستان میں 2.2 فیصد ہے اور اوسط عمر 22.8 سال ہے۔
بھارتی حکومت نے لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھایا یا نہیں؟
رپورٹ کے مطابق اہم سوال ہے یہ ہے کہ کیا حکومت نے طویل لاک ڈاؤن کے وقت کو مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کی تیاری کے لیے استعمال کیا یا نہیں۔
اس میں کہاگیا کہ بھارت میں کیسز کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور مزید بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ معیشت پر بڑھتے دباؤ کی وجہ سے اب لاک ڈاؤن ہٹایا جارہا ہے۔
بھارت کے وزیر صحت نے دعویٰ کیا ہے کہ اب ملک میں انتہائی نگہداشت یونٹس میں31 ہزار 250 بستر موجود ہیں جو لاک ڈاؤن کے آغاز پر ساڑھے 9 ہزار بستروں سے زیادہ ہے۔
وزارت صحت نے کہا کہ قبل ازیں کورونا وائرس کے 4.8 فیصد مریضوں کو انتہائی نگہداشت یونٹ کے بستروں کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں کورونا وائرس کے کیسز اتنے بڑھ جاتے کہ انتہائی نگہداشت میں مریضوں کے لیے جگہ کم پڑجاتی لیکن مجموعی اعداد و شمار میں اس حقیقت کو مدنظر نہیں رکھا گیا کہ ملک میں وائرس یکساں طور پر نہیں پھیلا۔
5 شہروں میں کورونا کے 60 فیصد کیسز
بھارت میں کورونا وائرس کے 60 فیصد کیسز 5 شہروں ممبئی،دہلی، احمدآباد، چنائی اور پونے سے رپورٹ ہوئے، بھارت کے کمرشل دارالحکومت ممبئی اور پونے میں انتہائی نگہداشت میں مریضوں کے لیے بستروں کی پہلے ہی کمی ہے۔
ممبئی وائرس سے بری طرح متاثر ہوا ہے جہاں بھارت کے مجموعی کیسز کے 20 فیصد رپورٹ ہوئے ہیں اور کیسز میں اضافے کے باعث صحت کے انفراسٹرکچر میں بہتری لانے کی صلاحیت ختم ہورہی ہے۔
بھارت کی مغربی ریاست گجرات میں بھی صورتحال اتنی ہی سنگین ہے، مئی کے وسط تک سرکاری ہسپتال پہلے ہی بھرے ہوئے تھے اور کچھ نجی ہسپتال فیسیں لے کر عالمی وبا کا استحصال کررہے تھے۔
مزید پڑھیں: بھارت میں 14 گھنٹوں کا جنتا کرفیو، لوگ گھروں تک محدود، کاروبار بند
گجرات کی ہائی کورٹ نے مداخلت کی تھی اور ریمارکس دیے تھے کہ ایک عام آدمی وصول کی جانے والی فیس کے باعث کبھی بھی نجی ہسپتال سے مناسب علاج کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
ہائی کورٹ نے یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ مودی کے لاک ڈاؤن کا سب سے بڑا مسئلہ بھوک کا بحران تھا جو بھارت کے تارکین وطن مزدوروں اور غریبوں میں پھیل گیا تھا۔
'لوگ وائرس کے بجائے خوراک کیلئےپریشان'
عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ ' وہ وائرس سے متعلق نہیں بلکہ خوراک کے لیے پریشان ہیں'۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ نریندر مودی کی کورونا وائرس سے متعلق حکمت عملی کی سب سے بڑی ناکامی بھارت کے غیر رسمی شعبے سے وابستہ افراد پر مسلط کی گئی تباہی اور تکلیف ہے جن میں سے اکثر افراد کا تعلق انتہائی غربت کا شکار دیہاتوں سے ہے جو کسی تحفظ کے بغیر شہروں میں کام کرتے ہیں۔
اس میں بتایا گیا کہ 4 گھنٹے کے نوٹس پر فیکٹریاں اور کاروبار بند کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد ہزاروں تارکین وطن ورکرز کو تنخواہیں نہیں دی گئی تھیں، وہ کرایہ ادا نہیں کرسکے، ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، انہوں نے اپنے دیہاتوں کی طرف دیکھا جہاں وہ توسیعی خاندان پر انحصار کرکے رہائش اور کھانا حاصل کرسکیں گے۔
علاوہ ازیں پبلک ٹرانسپورٹ معطل سے ورکرز کو 100 ڈگری فارن ہائیٹ کے درجہ حرارت میں سیکڑوں میل پیدل چلنا پڑا، صرف مئی کے مہینے میں 150 سے زائد ورکرز پیدل گھر لوٹتے ہوئے ٹریفک یا ٹرین حادثے میں ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت میں اب لاک ڈاؤن میں جزوی نرمی کی جارہی ہے اور تارکین وطن ورکرز اسی سفر کی جانب واپس لوٹ رے ہیں جہاں وہ 2 ماہ پہلے ہوسکتے تھے جب بھارت میں کیسز ہزار سے بھی کم تھے۔
انتظامی تیاری کے بغیر اقدامات
آبادی کے تناسب کے باعث بھارتی حکومت کو کچھ وقت ملا لیکن بھارت کو اب بیک وقت 2 چیلنجز کا سامنا ہے ایک یہ کے طبی انفرااسٹرکچر اکثر جگہوں پر دباؤ کا شکار ہے جہاں کیسز میں اضافہ خطرناک ہے اور دوسرا یہ کہ آبادی معاشی مشکلات کا شکار ہے جن میں کئی افراد کو قحط سالی کے خطرات لاحق ہیں۔
خیال رہے کہ نریندر مودی کی جانب سے بڑے جوش و خروش اور کم انتظامی تیاری کے ساتھ اقدامات اعلان کرنے کی ایک تاریخ موجود ہے۔
نریندر مودی اور ان کی حکومت کو لوگوں کے نقطہ نظر سے نمٹنے کے لیے اپنے مرکز سے آگے بڑھنا ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق بھارت میں متوسط اور امیر طبقے نے آسانی سے لاک ڈاؤن کا عرصہ گزارا لیکن کورونا وائرس کے کیسز گنجان آباد شہری علاقوں میں پھیل رہے ہیں جہاں غریب افراد سماجی دوری کی آسائش کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
یہ بھارت کے غریب لوگ ہیں جو کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، انفیکشن اور معاشی مشکلات بڑھنے سے مزید متاثر ہوں گے۔