والد نے میری ٹیم میں سلیکشن کیلئے رشوت دینے سے انکار کردیا تھا، کوہلی
بھارتی ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے والد نے ان کی دہلی کی جونیئر ٹیم میں سلیکشن کے لیے رشوت دینے سے انکار کردیا تھا۔
ون ڈے کرکٹ کے عالمی نمبر ایک بلے باز اور بھارتی ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی نے بھارتی فٹبال ٹیم کے کپتان کے ہمراہ ایک آن لائن فورم پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رشوت نہ دینے پر انہیں ٹیم میں نہیں منتخب کیا گیا تھا جس سے ان کا دل ٹوٹ گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کوہلی کے بڑے کھلاڑی بننے کی عظیم کہانی
انہوں نے کہا کہ میری اپنی آبائی ریاست میں کبھی کبھار کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو درست نہیں ہوتیں اور ایک موقع پر ایک شخص نے مجھے میرٹ پر ٹیم کا حصہ نہیں بنایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس شخص نے میرے والد کو کہا تھا کہ مجھ میں میرٹ تو ہے لیکن فائنل سلیکشن کے لیے کچھ رشوت دینی پڑے گی۔
کوہلی نے بتایا کہ میرے والد نے میرٹ پر سلیکشن پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو ویرات کو منتخب کرنا ہے تو میرٹ پر کریں، میں آپ کو کچھ بھی اضافی نہیں دوں گا۔
یہ بھی پڑھیں: کوہلی کی کرکٹ کے دلچسپ اعداد وشمار
بھارتی ٹیم کے موجودہ کپتان نے کہا کہ ٹیم میں منتخب نہ ہونے پر وہ بہت روئے اور ان کا دل ٹوٹ گیا لیکن اس واقعے نے انہیں بہت کچھ سکھایا اور وہ سمجھ گئے کہ دنیا اسی طرح چلتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھ گیا تھا کہ اگر مجھے آگے بڑھنا تو مجھے کچھ ایسا کرنا ہو گا جو کوئی اور نہیں کر رہا، اگر مجھے کامیاب بننا ہے ہے تو مجھے سب سے بہترین بننا ہوگا اور یہ سب کچھ مجھے اپنی کوششوں اور سخت محنت سے حاصل کرنا ہوگا۔
کوہلی نے کہا کہ میرے والد نے صرف الفاظ سے نہیں بلکہ اپنے عمل کے ذریعے مجھے درست راستہ دکھایا، ان چھوٹی چیزوں نے میری زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔
مزید پڑھیں: ویرات کوہلی کا نیا عالمی ریکارڈ، دہائی کے بہترین بلے باز بن گئے
کوہلی کے والد ایک وکیل تھے اور جب مایہ ناز بلے باز 18سال کے تھے تو وہ انتقال کر گئے تھے۔
تاہم حیران کن امر یہ کہ کھیل کے لیے کوہلی کا اس وقت بھی اس حد تک جنون اور لگاؤ تھا کہ وہ والد کے انتقال والے دن بھی دہلی کے لیے رانجی ٹرافی کا میچ کھیلنے گئے اور میچ میں اپنی ٹیم کو مشکلات سے نکالنے کے بعد والد کی آخری رسومات ادا کیں۔
کوہلی نے کہا کہ والد کی موت کے بعد میں سمجھ گیا تھا کہ مجھے اپنی زندگی میں کچھ کرنا ہے، اب میں سوچتا ہوں کہ کتنا اچھا ہوتا اگر میں اپنے والد کو وہ پرسکون ریٹائرڈ زندگی دے سکتا جس کے وہ مستحق تھے اور اکثر اوقات میں ان کے متعلق سوچ کر جذباتی ہوکر خود پر قابو نہیں رکھ پاتا۔