مشرق وسطیٰ کے لیے اعلان کردہ امن منصوبے پر عمل درآمد کیلئے تیار ہیں، امریکا
امریکا نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کے بڑے حصے کے الحاق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے ساتھ ہی نئی اتحادی حکومت سے فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کا بھی کہا۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے حکمرانی کے لیے کیے گئے معاہدے کے بعد دوبارہ دفتر سنبھالنے پر مغربی کنارے پر الحاق کے لیے آگے بڑھنے کا عزم دہرایا تھا جس کے بارے میں فلسطینوں کا کہنا ہے کہ یہ دو ریاستی حل کا دروازہ بند کردے گا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پیش کردہ منصوبے میں مغربی کنارے کے الحاق کو ہری جھنڈی دکھا دی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: نیتن یاہو کا وادی اردن کو اسرائیل میں شامل کرنے کا اعلان
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان نے کہا ہے کہ ’جیسا کہ ہم مسلسل واضح کرچکے ہیں کہ ہم اسرائیل کی جانب سے اس خودمختاری اور اسرائیلی قوانین کا اطلاق مغربی کنارے کے علاقوں تک پھیلانے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں ‘۔
ترجمان نے مزید کہا کہ یہ اقدام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وژن کے مطابق بیان کردہ خطوط کے مطابق اسرائیلی حکومت کے فلسطینوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے رضامندی کے تناظر میں ہوگا۔
خیال رہے کہ امریکی صدر کا منصوبہ اسرائیل کو مغربی کنارے میں یہودی آبادیوں کا الحاق کرنے اور اردن تک اپنی خودمختاری کو وسعت دینے کی اجازت دیتا ہے جسے باقی دنیا غیر قانونی سمجھتی ہے۔
اس منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو ایک خود مختار لیکن غیر عسکری ریاست دی جائے گی ساتھ ہی اس میں سرمایہ کاری کے وعدے بھی کیے گئے۔
مزید پڑھیں: امن منصوبے سے انکار پر اسرائیل فلسطین کو ریاست تسلیم نہ کرے، امریکی عہدیدار
فلسطینی ریاست کا دارالحکومت یروشلم کا مضافاتی علاقہ ہوگا اور مقدس شہر پر اسرائیل کا مکمل اختیار ہوگا۔
ترجمان اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق ’یہ فلسطینوں کے لیے ناقابلِ مثال اور انتہائی مفید موقع ہے‘۔
یاد رہے کہ فلسطینی، امریکی حکومت کو جانبدار سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ بات چیت کرنے سے انکار کرچکے ہیں اور یورپی یونین نے بھی امریکی صدر کے منصوبے پر تنقید کی تھی کیوں کہ وہ دو ریاستی حل کی ناکامی ہے۔
دوسری جانب عرب لیگ، اسرائیلی الحاق کے منصوبے پر بات چیت کرنے کے لیے رواں ہفتے ورچوول اجلاس منعقد کرنے کا ادارہ رکھتی ہے جو اسرائیلی اتحادی حکومت معاہدے کے تحت جولائی میں ہوسکتا ہے۔
امریکا کا امن منصوبہ
واضح رہے کہ رواں سال 28 جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یروشلم (بیت المقدس) اسرائیل کا 'غیر منقسم دارالحکومت' رہے گا جبکہ فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم میں دارالحکومت ملے گا اور مغربی کنارے کو آدھے حصے میں نہیں بانٹا جائے گا۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ہمراہ واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ 'اس طرح فلسطینیوں کے زیر کنٹرول علاقہ دگنا ہوجائے گا'۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبہ 80 صفحات پر مشتمل ہے۔
امریکی صدر نے کہا تھا کہ واشنگٹن، فلسطینیوں کے نئے دارالحکومت میں 'فخر سے' اپنا سفارت خانہ کھولے گا۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطین نے امریکا اور اسرائیل سے تمام تعلقات ختم کردیے
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس منصوبے سے فلسطین میں 50 ارب ڈالر کی نئی تجارتی سرمایہ کاری ہوگی اور اگر 'سب کچھ اچھی طرح انجام پایا' تو اس سے 10 لاکھ فلسطینیوں کے لیے ملازمتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔
بعد ازاں 31 جنوری کو فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو اوسلو معاہدے کے تحت سلامتی تعاون سے دستبردار ہونے پیغام پہنچایا تھا۔
فلسطینیوں نے امریکا کے اعلان کردہ منصوبے پر مزید ناپسندیدگی کا اظہار اور اسے مسترد کرتے ہوئے 2 فروری کو واشنگٹن اور اسرائیل سے سیکیورٹی کے امور سمیت تمام نوعیت کے تعلقات ختم کردیے تھے۔