آخر لاک ڈاؤن کے دوران ہر وقت تھکاوٹ کا احساس کیوں طاری رہتا ہے؟
نئے نوول کورونا وائرس کے نتیجے میں دنیا بھر میں اربوں افراد گھروں تک محدود ہوگئے ہیں کیونکہ بیماری کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لاک ڈائون یا دیگر مختلف پابندیوں پر عملدرآمد ہورہا ہے۔
مگر اس کے نتیجے میں لوگوں کو ایک عجیب مشکل کا سامنا ہورہا ہے اور وہ ہے بہت زیادہ تھکاوٹ، سستی اور ہر وقت غنودگی کا احساس۔
روزمرہ کی زندگی اس وبا کے نتیجے میں بری طرح متاثر ہوئی ہے، کچھ افراد اب گھروں سے کام کررہے ہیں جبکہ بیشتر ایسے ہیں جو کچھ بھی نہیں کررہے۔
اس کے نتیجے میں بہت مختصر وقت میں لوگوں کے معمولات زندگی مکمل طور پر بدل کر رہ گئے ہیں اور بیشتر کا اب سونے یا جاگنے کا کوئی وقت مخصوص نہیں رہا کیونکہ دفتر یا تعلیمی ادارے کے لیے وقت کی پابندی ضروری نہیں رہی۔
اور یہی وجہ ہے کہ متعدد افراد کو اس کے نتیجے میں غنودگی اور تھکاوٹ جیسے احساسات کا زیادہ سامنا ہورہا ہے۔
بظاہر تو سارا دن گھر میں بیٹھے رہنا اور کھ نہ کرنا تو مثالی محسوس ہوتا ہے اور ماہرین نفسیات کا کہنا تھا کہ یہ حیران کن نہیں لوگ معمول سے زیادہ تھکاوٹ اور غنودگی محسوس ہورہے ہیں کیونکہ نفسیاتی طور پر انسان نشوونما اور متحرک رہنے کے لیے بنے ہیں۔
ماہر نفسیات لوسی بیرس فورڈ نے کہا کہ اگر لوگ کسی قسم کے مشغلے یا سرگرمیوں کو معمولات کا حصہ نہیں بناتے تو وقت گزارنا بہتت تکلیف دہ ہوجاتا ہے جس کے نیتجے میں لوگوں میں تھکاوٹ، غنودگی یا ڈپریشن جیسے احساسات ہوسکتے ہیں، یعنی ہم جتنا کم متحرک ہوں گے، اتنا ہی خود کو شکست خوردہ بھھی تصور کریں گے۔
معمولی پرتنائو واقعات بھی ذہنی توانائی کو ختم کرنے کا باعث بن جاتے ہیں اور موجودہ عالمی وبا تو بہت زیادہ پرتنائو ایونٹ ہے۔
ڈاکٹر روجر ہینڈرسن کے مطابق پرتنائو ایونٹس سے ذہنی بے چینی کا باعث بننے والے ہارمونز جیسے ایڈرینالائن کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے، جو کہ مختصر المدت تنائو کے لیے تو مددگار ہوتا ہے، مگر اس کے نتیجے میں جسمانی توانائی میں کمی آتی ہے، جبکہ جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سست طرز زندگی بھی ذہنی طور پر غنودگی کے احساس کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔
ان کے بقول 'جتنا کم وقت ورزش یا جسمانی طور پر کم متحرک رہیں گے، اتنی ہی تھکاوٹ زیادہ محسوس ہوگی، طویل دورانیے تک بیٹھے یا لیٹے رہنے کے نتیجے میں فٹ افراد بھی تھکاوٹ کا شکار اورر امنگ سے محروم ہونے لگتے ہیں، کیونکہ مسلز کے افعال میں تبدیلی آتی ہے۔
اس کا حل بھی آسان ہے اور وہ ہے کچھ وقت ورزش کے لیے مخصوص کردینا، جو بائیوکیمیکل اور ہارمونل توازن میں مدد فراہم کرے گا، جبکہ اس سے ذہنی بے چینی کا باعث بننے والے ہارمونز کی کچھ مقدار کو جلانے میں بھی مدد ملے گی۔
صبح اور شام کو زیادہ وقت بستر پر لیٹے رہنے کے باوجود اس وبا کے نتیجے میں نیند بھی متاثر ہوسکتی ہے، جس سے بھی دن میں زیادہ تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے۔
ذہنی تنائو سے نیند پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی بے خوابی کی شکایت بڑھتی ہے یا اس کا معیار کم ہوجاتا ہے۔
واروک یونیورسٹی کے نیند کے ماہر ڈاکٹر مچل ملر کے مطابق ناکافی نیند سے جذبات پر کنٹرول متاثر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں چڑچڑے پن، بدمزاجی اور کام کے لیے توجہ مرکوز نہ کرنے جیسی شکایات کا سامنا ہوتا ہے۔
تو اچھی نیند کو کیسے یقینی بنایا جائے؟ تو چند عام چیزوں کو اپپنالینا اہیے یعنی سونے سے کھ دیر پہلے خبروں اور سوشل میڈیا سے دوری اختیار کریں، سونے کا پرسکون ماحول بنائیں اور لاک ڈائون سے پہلے جس وقت سوتے اور جاگتے تھے، اس شیڈول پر عملدرآمد جاری رکھیں۔
ماہرین کے مطابق کچھ دیر ورزش کرنا، کچھ نیا کام یا مشغلہ اپنانا، اپنے پیاروں سے رابطے میں رہنا یعنی فون یا ویڈیو کال کی مدد سے لوگوں سے رابطہ کرنا، اس تھکاوٹ اور غنودگی سے بچانے میں مدد دے سکتا ہے۔
ضرورت مند افراد کی مدد کرنے سے بھی ذہنی سکون ملتا ہے جو اس طرح کے مسائل سے بچانے میں مدد دے سکتا ہے۔