مفتی اعظم کشمیر سے موسیقی کے خلاف فتویٰ واپس لینے کا مطالبہ
ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر کے مفتیٔ اعظم بشیر الدین احمد آج کل موسیقی سے تعلق رکھنے والے اور اس کو پسند کرنے والے طبقے کی تنقید کی زد میں ہیں۔ اس طبقے کا مطالبہ ہے کہ مفتی بشیر اپنے اس بیان پر معافی مانگیں، جس میں انہوں نے نوجوان لڑکیوں کے راک بینڈ پراگاش کو ختم کرنے کے لیے زور دیا تھا۔
تین نوجوان ٹین ایجر لڑکیوں پر مشتمل اس گروپ نے مفتی بشیر الدین احمد کے فتوے کے ایک دن کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنا راک بینڈ ختم کررہی ہیں۔ مفتی بشیر نے اس فتوے میں کہا تھا کہ اسلام میں موسیقی اور گانا بجانا جائز نہیں ہے، لہٰذا انہوں نے کہا تھا کہ ان لڑکیوں کو یہ کام نہیں کرنا چاہئیے۔
ان لڑکیوں نے معاشرتی رسم ورواج کے برعکس ہمت کا مظاہرہ کیا تھا، لیکن جب انہیں آن لائن دھمکیاں دی جانے لگیں اور قدامت پرست معاشرے کی طرف گالیاں تک دی جانے لگیں اور ان لڑکیوں کی زندگی کو ہی خطرات لاحق ہوگئے تو انہوں نے اپنے بینڈ کو ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
مفتی بشیرالدین نے کہا تھا ”میں یہ بات کہہ چکا ہوں کہ موسیقی اور گانا بجانا اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔“
لیکن اب خود مفتی بشیر ایک عوامی محفل موسیقی میں موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پکڑے گئے ہیں، اور ان کی اس محفل میں شرکت اور موسیقی سے لطف اندوز ہونے کا ثبوت ایک وڈیو کی صورت میں دنیا بھر میں بذریعہ انٹرنیٹ اور موبائل فون پھیل گیا ہے۔
گلوکاروں اور موسیقاروں کا ایک اعلیٰ سطح کا پلیٹ فارم کشمیر میوزک کلب کے چیئرمین وحید جیلانی کا کہنا ہے کہ ”مفتی صاحب کو سب نے موسیقی سے لطف اندوز ہوتے دیکھ لیا ہے۔ خلافِ اسلام قرار دے کر جس کام سے وہ اُن لڑکیوں کو روک رہے تھے، خود اس کا لطف اُٹھا رہے ہیں،یہ سراسر منافقت ہے۔ اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ ان لڑکیوں سے معافی مانگیں۔“
یادرہے کہ مفتی بشیر کے فتوے کے بعد سے ہی ان لڑکیوں کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں ملنی شروع ہوئی تھیں۔
قیصر نظامی جو معروف گلوکار ہیں، انہوں نے اس محفل میں غزل اور صوفی کلام پیش کیا تھا، جس محفل میں مفتی اعظم بھی شریک تھے۔ قیصر نظامی نے مفتی بشیر سے ان کے فتوے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب میں اس بات کو رد کردیا اور کہا کہ انہوں نے محض یہ کہا تھا کہ یہ ہمارے معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں کہ لڑکیاں اس طرح کے کام کریں۔
قیصر نظامی نے کہا ”اگر مفتی یہ فتویٰ جاری کرتے ہیں کہ موسیقی حرام ہے تو میرے جیسے لوگ جن کا موسیقی کے علاوہ کوئی اور ذریعہ آمدنی نہیں ہے، وہ تو بھوکے مرجائیں گے۔“
تاہم مفتی بشیر کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ پراگاش کے خلاف دیا گیا فتویٰ واپس نہیں لیا جائے گا۔
ترجمان نے کہا کہ ”راک بینڈ کے خلاف دیے گئے فتوے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ جس کانفرنس میں مفتی صاحب نے شرکت کی تھی، وہ خالصتاً مذہبی نوعیت کی تھی۔ راک بینڈ کی طرز کا کوئی موسیقی کا پروگرام س کانفرنس کے دوران نہیں پیش کیا گیا تھا۔“
دختران ملت نامی ایک شدت پسند اور کٹر پن نظریات کے حامل علیحدگی پسند خواتین کے گروپ کی سربراہ عائشہ اندرابی کا کہنا ہے کہ پراگاش کے خلاف دیا گیا فتوی اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ تاہم مفتی نے اگر ایسی کسی محفل میں شرکت کی ہے، جہاں موسیقی پیش کی گئی تھی تو انہیں اس چیز کی وضاحت کرنی چاہئیے۔ دوسری صورت میں یہ منافقت کہلائے گی۔
مفتی بشیر کا مذکورہ وڈیو جو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل چکا ہے، میں واضح دکھائی دیتا ہے کہ وہ کشمیر کی مشہور ڈل جھیل میں دور درشن کی سابق ڈائریکٹر شہزادی سائمن کے ہاؤس بوٹ پر منعقدہ محفل موسیقی میں میوزیکل پرفارمنس سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
یہ محفل موسیقی ریڈیو کشمیر کے زیراہتمام اردو کے معروف شاعر اکبر جئے پوری کی یاد میں منعقد کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق کشمیری سنگر قیصر نظامی نے مہدی حسن کی گائی ہوئی مشہور غزل ”رنجش ہی سہی“ اور ”رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے“ کے علاوہ ایک پنجابی نمبر چھاپ تلک بھی پیش کیا تھا۔
کانگریس کے رہنما دگ وجئے سنگھ نے بھی مفتی اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مفتی اعظم کی منافقت سامنے آگئی ہے۔
وجئے سنگھ نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا ہے کہ ”تمام مذہبی بنیاد پرست دو رُخی بات کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔“
دوسری جانب سعودی عرب میں جس کا دنیا بھر کے مسلمان اتباع کرتے ہیں، کے ممتاز عالم دین الحمیدی عبیسان نے موسیقی، اختلاط مرد و زن اور خاتون کے چہرے کو نقاب سے ڈھانپنے کے عدم وجوب سے متعلق کہا ہے کہ ایسی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں جس سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ موسیقی اورمرد وعورت کے مخلوط شکل میں رہنے کو حرام اور خاتون کے چہرے پر نقاب اوڑھنے کو لازمی قرار دیا جاسکے۔
العربیہ نیوز چینل کے فلیگ شپ پروگرام"اضاءت" میں گفتگو کرتے ہوئے سعودی عالم دین کا کہنا تھا کہ ”ان کے پاس موسیقی کوحرام قرار دینے سے متعلق کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔ موسیقی کی ممانعت میں شدت دراصل فحش گوئی کے عنصر کے موسیقی میں ملنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔“
تبصرے (4) بند ہیں