حکومت نے آئی پی پیز کو اہم بات چیت کیلئے طلب کرلیا
اسلام آباد: حکومت نے تمام پاور پلانٹس بالخصوص انڈیپینڈیٹ پاور پروڈیسرز(آئی پی پیز) کے منتظمین سے بجلی کی طلب کم ہونے کے باعث فوری واجبات کم کر نے کے ممکنہ آپشنز پر بات چیت کرنے کے لیے پہلا باضابطہ رابطہ کرلیا۔
ایک سینیئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ وزیر توانائی عمر ایوب خان کی سربراہی میں بین الوزارتی اعلیٰ سطح کی کمیٹی 15 اپریل کو پنجاب میں حال ہی میں لگائے گئے سرکاری بجلی گھروں اور بجلی بنانے والی پبلک سیکٹر کی کمپنیوں سے مشاورت کے لیے ملاقات کرے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق محکمہ توانائی کے اعلیٰ عہدیدار آئی پی پیز کی انتظامیہ اور اسپانسرز کے ساتھ غیر رسمی رابطے میں تھے جس کے بعد بین الاقوامی ثالثی کے باوجود حکومت میں 9 آئی پی پیز کے ساتھ خوشگوار تصفیہ پر تعمیری بات چیت کے لیے اعلیٰ سطح کی بات چیت ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: شعبہ توانائی کیلئے 3 کھرب روپے کا بیل آؤٹ پیکج منظور
واضح رہے کہ آئی پی پیز نے حکومت کے خلاف بین الاقوامی تصفیہ جیت لیا تھا لیکن وہ عدالت سے باہر تصفیہ کے لیے وزیر توانائی عمر ایوب اور سیکریٹری توانائی عرفان علی کے ساتھ رابطے میں تھے۔
دونوں فریقین نے مارک اپ چارجز کم کرنے اور ادائیگیوں کے لیے 9 ماہ کے اضافی وقت پر اتفاق کیا تھا لیکن حکام اسے متعلقہ فورم سے اب تک منظور نہ کرواسکے۔
وزیرتوانائی کی سربراہی میں وزیر قانون فروغ نسیم، معاون خصوصی برائے قدرتی وسائل شہزاد قاسم، سیکریٹری خزانہ نوید کامران بلوچ اور سیکریٹری توانائی عرفان علی کے علاوہ سیکریٹری قانون پر مشتمل ٹیم میٹنگ میں شرکت کرے گی۔
حکام کو آئی پی پیز سے بجلی کی قیمتِ خرید کے کچھ عناصر بشمول گنجائش کے چارجز میں کچھ کمی حاصل ہونے کی توقع ہے تاہم ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کی جانب سے سرکاری دفاتر سے شہرت کو نقصان پہنچانے والے موقف پر برہمی کا اظہار کیا گیا۔
مزید پڑھیں: آئی پی پیز نے غیر منصفانہ معاہدوں کے چارجز مسترد کردیے
خیال رہے کہ توانائی کے شعبے پر واجبات میں اضافے کی وجہ سے کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے 2 اپریل کو بجلی کے منصوبوں کے نجی سرمایہ کاروں کو ان کی گنجائش کی ادائیگیوں کی شرائط پر دوبارہ بات چیت کے لیے شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس حوالے سے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے بجلی قیمتوں پر ایک کھرب 86 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑا ہے جبکہ گنجائش کا ایک بڑا حصہ استعمال نہ ہونے کے باوجود ذخیرہ کرنے کے چارجز 5 کھرب 70 ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔
جس کے نتیجے میں بجلی کے ضیاع کو کم کرنے اور عدم ادائیگیوں کے خلاف مہم سے حاصل ہونے والی کامیابیاں ضائع ہوگئیں۔