وبا سے نمٹنے کے دوران مسلم و یہودی رضاکار کی ایک ساتھ عبادت
کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے اس وقت جہاں دنیا بھر میں حکومتیں خصوصی انتظامات کے تحت مذہبی عبادت گاہوں کو بھی عارضی طور پر بند کر رہی ہیں۔
وہیں لوگ گھروں اور رستوں سمیت قرنطینہ میں بھی اپنے اپنے عقائد کے تحت عبادات کرکے عالم انسانیت کی شفا کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔
کورونا وائرس کی وبا سے دنیا کی حفاظت کے لیے جہاں مسیحی اپنے چرچز اور گھروں میں رہ کر خصوصی عبادات و دعاؤں کا اہتمام کرتے دکھائی دے رہیں، وہیں دنیا بھر میں مسلمان بھی اپنے گھروں سمیت رستوں اور قرنطینہ سینٹرز میں بھی وبا کے خاتمے کے لیے دعائیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اسی طرح یہودی، ہندو اور بدھ مت مذہب سمیت دیگر مذاہب کے پیروکار بھی اپنے اپنے عقائد کے مطابق دنیا سے وبا کے خاتمے کے لیے خصوصی دعائیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
کورونا وائرس سے نمٹنے کے دوران وبا کے خاتمے کے لیے اجتماعی عبادت کرنے کا ایسا ہی کام اسرائیل کے دو میڈیکل رضاکاروں نے بھی اپنے اپنے عقائد کے مطابق سر انجام دیا، جس کے بعد دونوں رضاکاروں کی تعریفیں کی جا رہی ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق اسرائیل کے شہر بیر سبع میں اسرائیل کے محکمہ صحت کے ادارے میگن ڈیوڈی ایڈم (ایم ڈی اے) کے مسلمان و یہودی رضاکار نے ایک ساتھ عبادت کرکے دنیا بھر کو ایک منفرد پیغام دیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی محکمہ صحت کے ادارے میں طبی رضاکار عملے کی خدمات سر انجام دینے والے مسلمان پیرامیڈیکل اسٹاف ظہر ابو جاما اور یہودی پیرامیڈیکل اسٹاف اورام منتز نے دوپہر کے وقت کام سے تھوڑا سا وقفہ لے کر اپنے اپنے عقائد کے مطابق روڈ پر ہی عبادت کی اور وبا کے خاتمے کے لیے دعا بھی کی۔
دونوں رضاکاروں نے اپنے اپنے عقائد کے مطابق مختصر وقت کے دوران عبادات کیں اور اس دوران یہودی پیروکار نے یروشلم میں واقع دیوار گریہ جب کہ مسلمان پیروکار نے خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے عبادات کیں۔
مسلمان پیروکار نے نماز کی ادائیگی کی جب کہ یہودی پیروکار نے بھی یہودیت عقائد کے مطابق عبادت و دعا کے لیے اپنے معبود کو پکارا۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: احتیاط کے پیش نظر مسجد الاقصیٰ اور قبۃ الصخرہ بند
دونوں رضاکاروں کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر میں دونوں کو ایک روڈ پر ایمبولینس کو بند کرکے ایک ساتھ اپنے اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
دونوں رضاکاروں کی بیک وقت اپنے اپنے عقائد کے مطابق عبادات کرنے اور پھر ایک ہی ساتھ بلاتفریق مریضوں کو علاج و معالجے کی سہولیات فراہم کرنے پر کئی لوگوں نے ان کی تعریف کی اور ان کے عقائد کا احترام کیا۔
سوشل میڈیا صارفین نے دونوں رضاکاروں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین بھی پیش کیا اور انہیں اسرائیل کے لیے طاقت کا سرچشمہ بھی قرار دیا۔
خیال رہے کہ اگرچہ اسرائیل میں زیادہ تر آبادی یہودیت کے پیروکاروں کی ہے تاہم وہاں مسیحیوں سمیت مسلمان بھی آباد ہیں اور وہاں بسنے والے زیادہ تر مسلمان اسرائیل کے 1948 میں فلسطین پر قابض ہونے سے قبل کے رہائشی ہیں۔
اسرائیل میں فلسطینی نژاد عرب مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے اور حال ہی میں وہاں پہلی بار ایک مسلمان باحجاب خاتون بھی رکن اسمبلی منتخب ہوئی تھیں۔
اسرائیل میں بھی کورونا وائرس کے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور 27 مارچ کی شام تک وہاں مریضوں کی تعداد بڑھ کر 3 ہزار سے زائد ہوچکی تھی جب کہ وہاں ہلاکتوں کی تعداد بھی 10 سے تجاوز کر چکی تھی۔
اسرائیل میں بھی جزوی لاک ڈاؤن نافذ ہے جب کہ وہاں بھی تمام مذہبی عبادت گاہوں کو بند کردیا گیا ہے، اسرائیل کی طرح فلسطین میں بھی کورونا کے 50 کے قریب کیس سامنے آچکے ہیں اور وہاں بھی کاروبار زندگی معطل ہے۔
فلسطین نے بھی مسجد الاقصیٰ سمیت قبۃ الصخرہ کو بھی عارضی طور پر بند کردیا گیا ہے۔
مسجد الاقصیٰ اور قبۃ الصخرہ فلسطینی دارالحکومت بیت المقدس میں واقع ہیں اور اس شہر کو ’یروشلم‘ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ شہر دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے، اس شہر کو دنیا کے تین بڑے مذاہب، اسلام، مسیحی اور یہودیت کے پیروکاروں کے مذہبی و ثقافتی دارالحکومت بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ تینوں مذاہب کے ماننے والوں کی یہاں پر اہم عبادت گاہیں موجود ہیں جب کہ اس شہر میں تینوں مذاہب کی بہت بڑی آبادی بھی مقیم ہے۔
مسیحی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی وجہ سے اس شہر کو مقدس مانتے ہیں، جب کہ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ دیوار گریہ ہیکل سلیمانی کا حصہ ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے یہ شہر مقدس ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں