افغان رہنماؤں میں اختلاف، امریکا کا افغانستان کی امداد میں کمی کا فیصلہ
ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان کے رہنماؤں افغان صدر اشرف غنی اور سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے مابین متوازی حکومت کی تشکیل سازی میں عدم اتفاق پر ایک ارب ڈالر کی امداد میں کمی کا فیصلہ کرلیا۔
خبر رساں ادارے ایسوی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے مزید دھمکی دی ہے کہ اگر ان میں اتفاق نہ ہوا تو ہر قسم کے تعاون میں کمی کردی جائے گی۔
مزید پڑھیں: اشرف غنی نے دھماکوں کی گونج میں دوسری مرتبہ افغان صدر کا حلف اٹھالیا
امداد میں کٹوتی کا فیصلہ امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کابل کے غیر متوقع دورہ کے بعد کیا۔
اس دورے میں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی اور سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کیں تھیں۔
واضح رہے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سیاسی حریف ہیں جبکہ مائیک پومپیو دنوں کے درمیان سیاسی تنازع دور کرنے میں ناکام رہے۔
مائیک پومپیو نے دونوں افغان رہنماؤں کو ایک ساتھ مل کر کام نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور دھکمی دی کہ اس طرح افغان امن عمل متاثر ہوگا۔
مائیک پومپیو نے کہا کہ ’امریکا کو اس پر سخت افسوس ہے کہ افغان صدر اشرف غنی اور سابق چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ نے امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کو مطلع کیا ہے کہ وہ مشترکہ طور پر حکومت سازی پر متفق نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا-طالبان معاہدہ: افغان صدر نے طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ مسترد کردیا
مائیک پومپیو نے کہا کہ امریکا دونوں افغان قائدین کے رویے سے مایوس ہوا اور اس طرح امریکا اور افغانستان کے تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ افغان رہنماؤں کا رویہ دراصل امن عمل میں جان دینے والے اہلکاروں کی توہین ہے۔
وطن واپسی کے موقع پر مائیک پومپیو نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اُمید تھی کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ ایک ساتھ مل جائیں گے اور ہمیں اس امداد کو کم نہیں کرنا پڑے گا لیکن ہم ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’طالبان نے معاہدے کے مطابق حملوں میں غیر معمولی کمی کی اور ان کی ٹیم حتمی مذاکرات کے لیے مثبت اقدام اٹھا رہی ہے‘۔
سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ امریکا امن معاہدے کے مطابق افغانستان سے اپنی فوجیوں نکالے گا۔
یہ بھی پڑھیں: امن معاہدے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی طور پر طالبان سے ملنے کے خواہاں
مائیک پومپیو نے مزید کہا کہ اگر دونوں رہنماؤں پر مشتمل حکومت تشکیل نہیں دیتے تو امریکی امداد میں کمی پر دوبارہ غور کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن افغانستان کے عوام کے ساتھ شراکت کے لیے پرعزم ہے۔
سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ اس کے مظاہرے کے طور پر امریکا افغانستان کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے لڑنے میں مدد کے لیے 15 ملین ڈالر کی امداد فراہم کرے گا۔
واضح رہے کہ رواں ماہ 9 تاریخ کو افغانستان کے صدر اشرف غنی نے تنازع کے باوجود دوسری مرتبہ صدارت کا حلف اٹھایا جبکہ عبداللہ عبداللہ نے بھی متوازی تقریب کا اہتمام کیا تھا۔
قبل ازیں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان تنازع کے باعث تقریب حلف برداری کو مؤخر کیا گیا تھا حالانکہ غیر ملکی سفارت کاروں کی بڑی تعداد پہنچ چکی تھی جن میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد بھی موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیں: [امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا]4
زلمے خلیل زاد نے دونوں رہنماؤں کے درمیان مصالحت کی کوشش کی جو ناکام ہوئی اور اشرف غنی نے حلف اٹھا لیا جس میں امریکی نمائندہ خصوصی کے علاوہ سفارت کاروں اور نیٹو فورسز کے کمانڈر اسکاٹ ملر نے بھی شرکت کی۔
دوسری جانب عبداللہ عبداللہ نے بھی صدارتی محل میں تقریب منعقد کی اور صدر کے طور پر حلف اٹھایا اور افغانستان کی ‘آزادی کا تحفظ، قومی خود مختاری اور سرحدی سالمیت’ پر زور دیا۔
خیال رہے کہ افغانستان کے دونوں حریف رہنماؤں نے طالبان کے مقابلے میں کسی معاہدے پر پہنچنے میں ناکامی کے بعد متوازی صدارتی تقاریب حلف برداری کی تیاریاں کی تھیں۔
فروری 2020 میں افغانستان کے الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر اشرف غنی کی کامیابی کا اعلان کیا تھا لیکن ان کے سخت ترین حریف عبداللہ عبداللہ نے کہا تھا کہ وہ اور ان کے اتحادی انتخاب میں کامیاب ہوئے ہیں اور اصرار کیا کہ حکومت وہ ہی بنائیں گے۔